میرے بیٹے مجھ سے اپنا حصہ مانگ رہے ہیں ،ازرئے کرم مجھے بتائیں کہ کس کا کتنا حصہ بنتا ہے،مجھے دو طریقے سے حصہ بتائیں ایک تو مندرجہ بالا ،دوسرا طریقہ کہ میں اگر 33 فیصد حصہ اس رقم سے نکال دوں تو کتنا کتنا حصہ بنے گا،میں(سائل)،بیوی،تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔
واضح رہے کہ والد کی زندگی میں اولاد کا ان کی جائیداد میں کوئی مالکانہ حق اورحصہ نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی کو اس کی جائیداد میں مطالبہ کا حق حاصل ہوتاہے، تاہم اگر جائیدادکامالک اپنی زندگی میں اپنی جائیداد خوشی ا وررضا مندی سے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے وہ میراث نہیں ہوتی، بلکہ وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور اولاد کو ہبہ کرنے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ سب کے درمیان برابری ،مساوات اور انصاف کا پہلو اختیار کرے۔
البتہ کسی بیٹے یا بیٹی کو کسی معقول شرعی وجہ کی بنا پر دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دینا چاہے تو دےسکتا ہے، یعنی کسی کی دین داری یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے، لیکن بعض کو دینا اور بعض کو محروم رکھنا یا کسی معقول وجہ کےبغیر کم زیادہ دینا شرعاً سخت گناہ ہے، اس سے بچنا لازم ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں سائل کے بیٹوں کا اس سے زندگی میں جائیداد میں مطالبہ کرنا جائز نہیں اور نہ ہی ان کے مطالبے پر سائل پر تقسیم کرنا لازم ہے، اگر سائل اپنی خوشی سے زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم کرناچاہتے ہیں تو اس کا شرعی طریقہ یہ ہے :سب سے پہلے اپنے لئے بقدر ضرورت رکھ لے ،تاکہ ضرورت کے وقت کسی کامحتاج نہ ہوناپڑے،اس کے بعد اپنی شریک حیات (بیوی) کوکم ازکم آٹھواں حصہ دیدے،اس کےبعد اپنی تمام اولادکوبرابری اورمساوات کی بنیادپردیدے،یعنی جتناحصہ اپنے ایک بیٹے کودے اتنا حصہ اپنے دوسرے ہر ایک بیٹے اورہرایک بیٹی کودے ، ہرایک کواس کے حصہ پرمالکانہ قبضہ اورتصرف دیدے،کسی معقول وجہ کے بغیر کمی بیشی نہ کرے،رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ۔
نوٹ: سائل پورا مال ان میں تقسیم کرنا چاہیے یا 33 فیصد رقم الگ کرکے باقی تقسیم کرنا چاہیے دونوں طریقوں میں مذکورہ باتوں کا خیال کرنا ضروری ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرا أحدا لآثرت النساء على الرجال» رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم. فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى."
(كتاب الوقف، مطلب في المصادقة على النظر، 444/4، ط: سعید)
وفيه ايضاً:
"وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم."
(کتاب الھبة، 696/5، ط: سعید)
درر الحکام فی شرح مجلۃ الأحکام العدلیہ میں ہے:
"كل يتصرف في ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير. انظر المادة (1197) . كما أنه لا يجبر من أحد على التصرف أي لا يؤمر أحد من آخر بأن يقال له: أعمر ملكك وأصلحه ولا تخربه ما لم تكن ضرورة للإجبار على التصرف."
(الكتاب العاشر، الباب الثالث، الفصل الأول، 201/3، ط: دارالجیل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100650
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن