میر ی خاوند سے طلاق ہو گئی ہے اور میرے تین بچے ہیں ،جن کا خرچ میں خود اٹھاتی ہوں جو کہ پڑھ رہے ہیں ،بچوں کے والد بیمار ہیں اور اپنی کفالت بھی نہیں کر سکتے ،ان کا دو بہنوں کے علاوہ کوئی نہیں ہے،اس لحاظ سے پوچھنا یہ ہے کہ کیا ان حالات میں باپ کو سنبھالنے کی ذمہ داری بچوں کی بنتی ہے؟ جب کہ بچے خود ماں پر انحصار کرتے ہیں ،وہ خود مختار نہیں ان کا کھانا، پینا ، پڑھائی سب ماں اٹھا رہی ہے ،مہربانی کر کے اس مسئلے کا حل بتائیں کہ قانونی ،شرعی ،اور معاشی طور کیا ہو سکتا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃًسائلہ کا بیان درست ہے کہ ـ بچے کام کاج نہیں کر سکتے اور ان کا خرچہ والدہ اٹھا رہی ہیں تو اس صورت میں ان پر باپ کا خرچہ اٹھانا لازمی نہیں ہے،لیکن اگر وہ بالغ ہوں محنت مزدوری اور کام کاج کر نے کے قابل ہوجائیں تو ان پر والد کی کفالت لازم ہو گی، بصورت دیگر والد کے قریبی رشتہ دار وں مثلا بہنوں وغیرہ پر لازم ہے کہ وہ اپنے بھائی کا خرچہ اٹھائیں۔
فتاوی تاتار خانیہ میں ہے:
"ثم یفرض علی الابن نفقة الأب محتاجا والابن موسرا، سواء کان الأب قادرا علی الکسب أو لم یکن، وذکر شمس الأئمة الحلواني في شرح أدب القاضي للخصاف: إن الأب إذا کان کسوباوالابن أیضا کسوبا یجبر الابن علی الکسب فی نفقة الأب."
( کتاب النفقات، الفصل الثالث، نفقة ذوي الأرحام، ج:5،ص:426، ط:مکتبة زکریا دیوبند)
البحرالرائق میں ہے :
"(ولأبویه وأجدادہ وجداته لو فقراء) أي تجب النفقة لِھٰؤلاء……وأطلق فی الابن ولم یقید فی الغنی مع أنه مقید به لما فی شرح الطحاوي ولایجبر الابن علی نفقة أبويه المعسرین إذا کان معسراً إلا إذا كان بهما زمانة أو بهما فقر فقط، فإنهما يدخلان مع الابن ويأكلان معه، ولا يفرض لهما نفقة على حدة."
وفیه أیضاً:
"وفي الخانية ولا يجب على الابن الفقير نفقة والده الفقير حكما إذا كان الوالد يقدر على العمل وإن كان الوالد لا يقدر على عمل أو كان زمنا وللابن عيال كان على الابن أن يضم الأب إلى عياله وينفق على الكل والموسر في هذا الباب من يملك."
(كتاب الطلاق،باب النفقة،ج:4،ص:223، ط:دار الکتاب الإسلامي)
فتاوى شامي میں ہے:
"(و) تجب أيضا (لكل ذي رحم محرم صغير أو أنثى) مطلقا (ولو) كانت الأنثى (بالغة) صحيحة (أو) كان الذكر (بالغا) لكن (عاجزا) عن الكسب (بنحو زمانة) كعمى وعته وفلج، زاد في الملتقى والمختار: أو لا يحسن الكسب لحرفة أو لكونه من ذوي البيوتات أو طالب علم (فقيرا) .... (بقدر الإرث) - {وعلى الوارث مثل ذلك} [البقرة: 233]- (و) لذا (يجبر عليه). ثم فرع على اعتبار الإرث بقوله (فنفقة من) أي فقير (له أخوات متفرقات) موسرات (عليهن أخماسا) ولو إخوة متفرقين فسدسها على الأخ لأم والباقي على الشقيق (كإرثه) وكذا لو كان معهن أو معهم ابن معسر؛ لأنه يجعل كالميت ليصيروا ورثة."
وفیه أیضاً:
"(قوله: كعمى إلخ) أفاد أن المراد بالزمانة العاهة كما في القاموس. وفي الدر المنتقى أن الزمانة تكون في ستة: العمى وفقد اليدين أو الرجلين أو اليد والرجل من جانب والخرس والفلج. اهـ .... ( قوله: وعته) بالتحريك: نقصان العقل...(قوله: بقدر الإرث) أي تجب نفقة المحرم الفقير على من يرثونه إذا مات بقدر إرثهم منه."
(كتاب الطلاق، باب النفقة، ج:3،ص:228، ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511101546
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن