بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

والد کی خدمت کے لیے شوہر کو چھوڑنے کا حکم


سوال

میرے ابو بیمار ہیں ، دو بھائی ہیں، میری امی کا انتقال ہوگیا ہے،ایک بھائی کے پانچ بچے ہیں اور ایک کی طلاق ہوگئی ہے،میں دوسرے شہر میں رہتی ہوں اپنے شوہر کے ساتھ،بھائی اور ابو چاہتے ہیں کہ میں اپنے شوہر سے علیحدگی کروں اور اپنے ابو کی دیکھ بھال کروں ،میرے شوہر کو بھی دیکھنے والا کوئی نہیں ہے،میرے لیے اللہ کا کیا حکم ہے؟ شوہر کے ساتھ ان کی دیکھ بھال نہیں کرسکتی،شوہر میرے ساتھ ابو کے گھر نہیں جائیں اور ابو یہاں نہیں آئیں گے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائلہ  کے بھائی موجود ہیں تو والد کی خدمت ان پر لازم ہے،سائلہ کے ذمہ ہے کہ وہ شوہر کے ساتھ رہے، سائلہ کے والد اور بھائیوں کو شرعا یہ حق نہیں کہ سائلہ سے شوہر کو چھوڑ کر والد کی خدمت کا مطالبہ کریں،ہاں سائلہ موقع بموقع ، وقتا فوقتا شوہر کی اجازت سے والد کے پاس آیا کرے اوران کی خدمت کیا کرے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا يمنعها من الخروج إلى الوالدين) في كل جمعة إن لم يقدرا على إتيانها على ما اختاره في الاختيار ولو أبوها زمنا مثلا فاحتاجها فعليها تعاهده ولو كافرا وإن أبى الزوج فتح (ولا يمنعهما من الدخول عليها في كل جمعة، وفي غيرهما من المحارم في كل سنة) لها الخروج ولهم الدخول زيلعي (ويمنعهم من الكينونة) وفي نسخة: من البيتوتة لكن عبارة منلا مسكين: من القرار (عندها) به يفتى خانية،

(قوله فعليها تعاهده) أي بقدر احتياجه إليها، وهذا إذا لم يكن له من يقوم عليه كما قيده في الخانية

قوله وإن أبى الزوج) لرجحان حق الوالد، وهل لها النفقة؟ الظاهر لا وإن كانت خارجة من بيته بحق كما لو خرجت لفرض الحج."

(کتاب الطلاق باب النفقۃ ج نمبر ۳ ص نمبر ۶۰۲،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609100915

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں