بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1446ھ 25 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

والد کی طرف سے بیٹے کو ہبہ کی گئی پراپرٹی میں طویل عرصے بعد بیٹی کا اپنے حصہ کا مطالبہ کرنا


سوال

ایک بندہ تھا جس کی دو  اولادیں تھیں ، جس میں سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے اس بندے نے اپنی زندگی میں اپنی  ساری پراپرٹی بیٹی اور بیٹےکے نام کر دی، اور سب رجسٹر ارر یونیو ڈیپارٹمنٹ میں رجسٹرڈ بھی کروا دی تھی،دونوں کو باقاعدہ مالکانہ حقوق کے ساتھ قبضہ بھی دے دیا تھا،بیٹی کو تین منزلہ ایک گھر ،تین دکانیں ، ساڑھے چار سے پانچ جریب زمین اور شادی کے موقع پر سونا دیا تھا،اس کے علاوہ جو کچھ تھا وہ بیٹے کو دےدیا تھا،پھر اپنی بیٹی کو  ( گفٹ ڈیڈ ) پرشاہد بھی  بنایاتھا اور(  No Objection/Acceptation Letter)  پرسائن اور انگوٹھے کے نشان بھی لیے تھے،یہ واقعہ 1993 کا ہے،اس کے بعد وہ وفات پا گیا ،اور بیٹا اپنی ساری پراپرٹی سنبھالتار ہا، پھرتقریباً 15 سال کے بعد ان کا بیٹا فوت ہو گیا اور اس مسئلہ کو 30 سال ہو گئے ہیں۔ اب اس بندے کی بیٹی اپنے بھائی کی اولاد پر  دعوی کررہی ہے کہ پراپرٹی میں اس کا بھی حصہ ہے اور وہ اسے دیا جائے،جب کہ بھائی کی اولاد کہہ رہی ہے کہ آپ شرعی طور پر ہم سے حصہ نہیں لے سکتی۔پوچھنا یہ ہے کہ کیا مذکورہ پراپرٹی میں بیٹی  شرعًا حق دار ہے یا نہیں اور شرعاًاس  کی کیا حیثیت ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی چیز کو ہبہ (گفٹ) کرنے کے لیے ضروری ہے  کہ واہِب (ہبہ کرنے والا) موہوبہ چیز (جس چیز کا ہبہ کیا جارہاہے)  کو موہوب لہ (جس کو ہبہ کررہا ہے) کے نام کرنے کے ساتھ اس کا مکمل  قبضہ اور تصرف بھی دے دے، اور ہبہ کے وقت موہوبہ چیز سے اپنا تصرف مکمل طور پر ختم کردے، صرف نام کردینے سے  شرعاً ہبہ درست نہیں ہوتا، نیز ہر چیز کا قبضہ اسی چیز کے حساب سے ہوتا ہے،مکان کے قبضہ کے تام ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ  واہب (مالک) اپنا سامان اس میں سے نکال دے اور خود بھی کچھ  وقت کے لیے اس میں سے نکل جائے، پھر اگر خود بھی مکان میں رہنا چاہتا ہے تو موہوب لہ کی اجازت سے رہ سکتاہےاس طرح موہوبہ چیز موہوب لہ کے لیے گفٹ ہوجائے گا، اور واہب کی ملکیت ختم ہوجائےگی۔

لہذا مذکورہ تفصیل کی  روسے صورتِ مسئولہ میں اگر اس مرحوم نے اپنے بیٹے اور بیٹی کے درمیان اپنی جائیداد کی تقسیم کر کے ہر ایک کو اس کا حصہ دے دیا تھا،اور دونوں کو اس پر مکمل قبضہ بھی دیدیا تھا،تو ہبہ تام ہونے کی وجہ سے ہر ایک ہبہ کے  وقت سے ہی اپنے اپنے حصے کی جائیداد کا مالک بن چکا تھا،اور اب  مذکورہ بہن کا اپنے بھائی کی پراپرٹی میں حصے کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے،اور نہ ہی وہ اس کا حق رکھتی ہے۔ البتہ اگر مرحوم نےکوئی جائیداد   یا کیش وغیرہ  اپنے استعمال میں رکھا ہوا تھا اور اس کو تقسیم نہیں کیا تھا یا کسی کے نام تو کردیا تھا لیکن اس کو عملی طور پر قبضہ نہیں دیا تھا، بلکہ خود ہی استعمال کرتا رہا تو پھر وہ چیز مرحوم ہی کی ملکیت تھی اورانتقال کے بعد وہ مرحوم کا ترکہ شمار ہوگااور اس میں سے بیٹی کا بھی شرعی حصہ ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرا أحدا لآثرت النساء على الرجال» رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم» فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى."

(کتاب الوقف،ج:4،ص:444،ط:سعید)

وفیہ ایضا:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".

(کتاب الھبة، ج:5، ص:690، ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية."

(کتاب الھبۃ،الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز،ج:4،ص:378،ط:دارالفکر بیروت)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"وفي المنتقى عن أبي يوسف: لايجوز للرجل أن يهب لامرأته وأن تهب لزوجها أو لأجنبي دارًا وهما فيها ساكنان، وكذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة علي الدار".

"وفي الفتاوى العتابية : ولو وهبه فارغًا وسلم مشغولًا لم يصح ولايصح قوله: أقبضها أو سلمت إليك إذا كان الواهب فيه أو أهله أو متاعه".

(فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز،  نوع منہ،ج:14،ص:431، ط: زکریا، دیوبند، دہلی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601102076

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں