میرے والد صاحب کا لیاقت آباد میں سیمنٹ کی چادر کا مکان تھا،والدہ نے بی سی ڈال کر ابو کی موجودگی میں بس ایسے ہی بنوانا شروع کیا،تاکہ اچھی طرح رہ سکیں ،گراؤنڈ فلور تک کا کام انہوں نے کروایا،اس کے بعد میں نے اپنے شوق سےاپنےپیسوں سے مکان کو دو منزلہ بنایا،اسی دوران والدہ کا بھی انتقال ہو گیا تھا،پھر ابو نے مکان بیچنے کا فیصلہ کیا ابھی مکان فروخت ہی ہوا تھاکہ میرے چھوٹے بھائی نے ایک لاکھ روپےکاروبار کے لیے لیےاورکہا کہ جب گھر بکے گااور وراثت تقسیم ہوگی تب اس میں سے کاٹ لینا،اسی طرح بہنوں نے یہ کہتے ہوئے پچاس ،پچاس ہزار لیے کہ یہ ہمارا حصہ ہو گیا، ہم میراث میں سے حصہ نہیں لیں گی۔والد صاحب نے اس وقت حامی بھری تھی،ہم چار بہنیں دو بھائی ہیں ،ایک بہن چوں کہ کنواری تھی اس لیے اس نے پیسے نہیں لیے،اس کے بعد ہم نے ناگن میں فلیٹ لیا اور اور جو کچھ پیسے بچے وہ چھوٹی بہن کی شادی کے لیے ابو نے رکھ دیے،اس کے بعد وہ فلیٹ بھی بیچ کر ایک اور جگہ فلیٹ لیا،پھر ابو کا انتقال ہو ااور جو پیسے بچے تھے ،اس سے بہن کی شادی کروادی۔اب میرا بھائی ساتھ رہنا نہیں چاہتا ،تو بڑی بہنوں نے مشورہ دیا کہ فلیٹ بیچ دو ۔
اب مجھے یہ بتائیں کہ فلیٹ بیچنے کے بعد اس کی تقسیم کیسے ہوگی ؟اسی طرح گھر خریدنے کا کمیشن ادا کرتے وقت ہمارے پاس پیسے نہیں تھے تو میں نے اپنی بیوی کا گولڈ بیچ کر اس سے ادائیگی کی تھی،کیا وہ رقم منہا کی جائی گی؟
والد صاحب نے اپنی آخری زندگی میں جب وہ بیمار تھے، میری چھوٹی بہن جس کی اس وقت شادی نہیں ہوئی تھی اور بیوی کے سامنے کہا تھا ،کہ وراثت میں میرا (سائل) کا ایک حصہ زیادہ رکھنا ،کیوں کہ اس نے گھر میں تعمیرات کا خرچہ خود سے کیا تھا۔اس وصیت کا کیا حکم ہے؟
1۔صورت ِ مسئولہ میں آپ کی والدہ اور آپ نے گھر کی تعمیرات پر پیسہ خرچ کرتے وقت اگر اس کے قرض ہونے یا بطور شراکت ہونے کی صراحت نہیں کی تھی تو یہ اخراجات آپ کی طرف سے تبرع شمار ہوں گے،اب ترکہ کی تقسیم کے وقت وہ منہا نہیں کیے جائیں گے۔
2۔جن بہنوں نے والد کی زندگی ہی میں پچاس پچاس ہزار روپے لے کر اپنے حصۂ میراث سے دستبردار ی ظاہر کی تھی اور والد صاحب نے بھی حامی بھر کر رضامندی ظاہر کردی تھی، اب ان کے لیے متروکہ مکان میں کوئی حصہ نہیں ہے۔
3۔ آپ کے بھائی نے والدصاحب کے پیسوں میں سے ایک لاکھ روپے یہ کہتے ہوئے لیے تھےکہ جب وراثت تقسیم ہوگی تو یہ اس میں سےکاٹ لینا،تو اب ترکہ کی تقسیم کے وقت اس کےحصہ میں سے یہ رقم منہا کی جائے گی۔
ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے سب سے پہلےترکہ میں سے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد، اگر مرحوم پرکوئی قرض ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد،اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی ترکہ سے اسے پورا کرنے کےبعد، باقی ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کے پانچ حصے کرکے دو حصے مرحوم کے ہر ایک بیٹے کواور ایک حصہ مرحوم کی چھوٹی بیٹی کوملے گا۔تقسیم کی صورت یہ ہے:
میت : (والد )5
بيٹا | بيٹا | بيٹي |
2 | 2 | 1 |
یعنی سو روپے میں سے 40 روپے ہر ایک بیٹےکے اور 20 روپے بیٹی کو ملیں گے۔
4۔ آپ نے گھر کا کمیشن اداکرتے وقت اگر والدصاحب سے رقم کی واپسی کا مطالبہ رکھا تھاتو اس صورت میں رقم کو پہلے مکان کی قیمت سے منہا کیا جائے گااور اگر اس سلسلے میں کوئی بات نہیں ہوئی تھی تو آپ اپنی بیوی کے مقروض ہوں گے،اور کمیشن کی رقم کو مکان کی قیمت سے منہا نہیں کیا جائے گا۔
5۔آپ کے والد صاحب نے آپ کے لیے جو وصیت کی ہے، اگر تمام عاقل بالغ ورثاء اسے پورا کرنے پر رضامند ہوں تو اس وصیت کو پورا کیا جائے گااور اگر ورثاء راضی نہ ہو تو اس وصیت کو پورا نہیں کیا جائے گا۔
خزانۃ الأکمل میں ہے:
"قال الشيخ أبو العباس الناطفي: رأيت بخط بعض مشايخنا فى رجل جعل لأحد بنيه دارا بنصيبه على أن لا يكون له بعد موت الأب ميراث جاز وأفتى به الفقيه أبو جعفر محمد بن اليمان أحد أصحاب محمد بن شجاع البلخي."
(كتاب الوصايا، من فتاوی الناطفي، ج: 4، ص: 589، ط: دار الکتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"ولو بنى لرب الأرض بلا أمره ينبغي أن يكون مبترعا كما مر."
(كتاب الخنثى، مسائل شتى، ج: 6، ص: 747، ط: سعيد)
الفقہ الاسلامی وأدلتہ میں ہے:
"الإرث لغة: بقاء شخص بعد موت آخر بحيث يأخذ الباقي ما يخلفه الميت. وفقهاً: ما خلفه الميت من الأموال والحقوق التي يستحقها بموته الوارث الشرعي."
(الباب السادس،الفصل الأول، تعریف علم المیراث، ج: 10، ص: 7697، ط: دار الفکر)
موسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:
"كل من مات وله دين مؤجل، فإنه ينتقل بعد موته إلى ورثته حالا."
(حرف الميم، كلمة : موت، ج: 39،ص: 262، ط: وزارة الأوقاف)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة، ولو أوصى لوارثه ولأجنبي صح في حصة الأجنبي ويتوقف في حصة الوارث على إجازة الورثة إن أجازوا جاز وإن لم يجيزوا بطل ولا تعتبر إجازتهم في حياة الموصي حتى كان لهم الرجوع بعد ذلك، كذا في فتاوى قاضي خان."
(کتاب الوصایا، الباب الأول، ج: 6، ص: 90، ط: دار الفكر)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144511101927
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن