بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

والد کو یہ کہنے: ”تین طلاق واقع ہو اگر میں نے آپ کے ساتھ رات کا کھانا بھی کھایا“ سے طلاق واقع ہونے کا حکم


سوال

ایک آدمی نے کچھ بکریاں اپنے والد صاحب کی اجازت کے بغیر خریدی تھیں، جب  اس کے والد صاحب کو اطلاع ملی تو اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ: ”اگر تم اس طرح کام کرتے رہو گے تو بخدا تم میرے ساتھ رات نہیں گزاروگے“   بیٹے کو بھی غصہ آگیا، اس نے غصہ کی  حالت میں والد کے سامنے یہ الفاظ کہے کہ: ”تین طلاق واقع ہو اگر میں نے آپ کے ساتھ رات کا کھانا بھی کھایا“۔

اب بیٹا یہ کہتا ہے کہ جس وقت میں نے یہ بات کہی اس وقت میرا ارادہ جانے کا نہیں تھا، بعد میں میرا جانے کا ارادہ بنا تو لوگوں نے مجھے روکا تو میں بھی جانے سے باز آیا، لیکن رات کا کھانا ابھی تک میں نے اپنے والد کے ساتھ نہیں کھایا ہے تو ایسی صورت میں طلاق کا کیا حکم ہے؟ کیا طلاق واقع ہوگئی ہے یا نہیں؟ اور کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟

وضاحت: 

رات کے کھانے سے میرا مقصد اسی رات (جس دن لڑائی ہوئی تھی)کا کھانا تھا، کہ میں آپ کے ساتھ اس رات کا کھانا بھی نہیں کھاؤں گا، یعنی اس سے پہلے پہلے نکل جاؤں گا۔ نیز میں ابھی تک اسی گھر میں والد کے ساتھ رہتا ہوں لیکن رات کا کھانا ابھی تک والد کے ساتھ اکھٹا نہیں کھایا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ شخص نے اپنے والد کے ساتھ لڑائی کےدوران یہ الفاظ کہے  کہ: ”تین طلاق واقع ہو اگر میں نے آپ کے ساتھ رات کا کھانا بھی کھایا“ توایسی صورت میں  مذکورہ تینوں طلاقیں والد کے ساتھ مذکورہ گھر میں رات گزارنے  کے ساتھ معلّق ہوگئی تھیں، کیوں کہ مذکورہ الفاظ عرفاً رہائش ختم کرنے  کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں، تومذکورہ الفاظ کا  مطلب یہ نکلا  کہ: ”میں آپ کے ساتھ اسی گھر میں آج رات کے کھانا کھانے سے بھی پہلے نکل جاؤں گا، رہائش ختم کروں گا“، پس مذکورہ شخص نے جب اپنے والد کے ساتھ اسی گھر میں رات گزاری اگرچہ کھانا نہیں کھایا تو بھی مذکورہ  تینوں معلّق طلاقیں واقع ہوگئیں،اور بیوی شوہر پر حرمتِ مغلّظہ کے ساتھ حرام ہوگئی،اب رجوع یا دوبارہ نکاح کرنے کی گنجائش نہیں ہوگی، بیوی عدت (مکمل تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اور اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے۔

نیز اس کے والدپر  بھی ان الفاظ  ”اگر تم اس طرح کام کرتے رہو گے تو بخدا تم میرے ساتھ رات نہیں گزاروگے“ کے کہنے  کی وجہ سے اس پر    قسم کا کفارہ لازم ہوگیا ہے،اس لیے کہ اس کے بیٹے نے مذکورہ رات اسی  گھر میں گزاری ہے، اور ابھی تک اسی گھر میں رہائش پذیر ہے، اور قسم کا کفارے میں وہ دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دے، یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دے دے( یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی رقم )،اور اگر جو دے تو اس کا دو گنا (تقریباً ساڑھے تین کلو) دے،  یا دس فقیروں کو  ایک ایک جوڑا کپڑا پہنا دے۔ اور اگر  کوئی ایسا غریب ہے کہ نہ تو کھانا کھلا سکتا ہے اور نہ کپڑا دے سکتا ہے تو مسلسل تین روزے رکھے ،اگر الگ الگ کر کے تین روزے پورے کر لیے  تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو اب دوبارہ تین روزے رکھے۔

ارشادِ باری تعالی ہے:

﴿لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ [المائدة: 89]

فتاوی شامی میں ہے:

"من الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام، فيقع بلا نية للعرف إلخ. فأوقعوا به الطلاق مع أنه ليس فيه إضافة الطلاق إليها صريحا، فهذا مؤيد لما في القنية، وظاهره أنه لا يصدق في أنه لم يرد امرأته للعرف، والله أعلم."

(كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، 3/ 248، ط: سعيد)

امداد الفتاوی میں ہے:

”از قواعد و جزئیات چنان می نماید که شرط وقوع طلاق مطلق اضافت ست نہ کہ اضافت صریحہ آرے تحقق مطلق اضافت محتاج ست بقرائن قویه و قرائن ضعیفہ محتمله در آن کافی نیست پس در جزئیاتیکہ حکم بعدم وقوع کرده اند سببش نه آنست که در اضافة صریحه نیست بلکه سبب آن ست که درو قرینۂ قویه بر اضافت قائم نیست و آں قرینه به تتبع چند قسم ست، اول: صراحة اضافت وآں ظاہر است كما في قوله اینکت۔ دوم: نیت کما فی قوله عنیت امراتی۔ واز عبارت خلاصہ : وإن لم يقل شيئا لا يقع شبه نه کرده شود که نیت بلا اضافت صریحه کافی نیست زیرا کہ معنی لا یقع اے لا تحكم بوقوعه ما لم يقل عنیت است چرا که بدون اظهار نادی دیگراں را علم نیت جگو نه می تواں شد فإذا قال عنيت يقع لا لقوله عنيت لا نه ليس موضوعا للطلاق بل لقوله سه طلاق مع النية، فافهم فإنه متعين متیقن۔ سوم: اضافته در کلام سائل کمافی قولہ دادم فی جواب قولہا  ”مرا طلاق ده“، ولہذا ثلث واقع شود لتکرار ہا ثلاثا ورنہ کلام دادم نہ برائے طلاق موضوع ست ونہ برائے عدد ثلثہ۔ چهارم: عرف كما في رواية الشامي الطلاق يلزمنيپس در جزئیاتیکہ ہمہ قرآئن مفقود باشند طلاق واقع نه خواهد شد لا لعدم الاضافة الصريحة بل لعدم مطلق الاضافة پس بریں تقریر در مسائل ہیچ گونه تدافع نیست هذا ما عندی و لعل عند غیری احسن من ہذا“۔

(کتاب الطلاق، طلاق کے مسئلہ میں اضافت کی تحقیق، 5/ 300-303، ط: زکریا بک ڈپو انڈیا، الہند)

فتاوی شامی میں ہے:

"الأصل ... (الأيمان مبنية على الألفاظ لا على الأغراض ...
(قوله وعندنا على العرف) لأن المتكلم إنما يتكلم بالكلام العرفي أعني الألفاظ التي يراد بها معانيها التي وضعت لها في العرفكما أن العربي حال كونه بين أهل اللغة إنما يتكلم بالحقائق اللغوية فوجب صرف ألفاظ المتكلم إلى ما عهد أنه المراد بها ... لا شك أن المتكلم لا يتكلم إلا بالعرف الذي به التخاطب سواء كان عرف اللغة إن كان من أهلها، أو غيرها إن كان من غيرهم نعم ما وقع مشتركا بين اللغة والعرف تعتبر فيه اللغة أنها العرف.
(قوله الأيمان مبنية على الألفاظ إلخ) أي الألفاظ العرفية بقرينة ما قبله واحترز به عن القول ببنائها على عرف اللغة أو عرف القرآن ففي حلفه لا يركب دابة ولا يجلس على وتد، لا يحنث بركوبه إنسانا وجلوسه على جبل وإن كان الأول في عرف اللغة دابة، والثاني في القرآن وتدا كما سيأتيوقوله: لا على الأغراض أي المقاصد والنيات، احترز به عن القول ببنائها على النية. فصار الحاصل أن المعتبر إنما هو اللفظ العرفي المسمى، وأما غرض الحالف فإن كان مدلول اللفظ المسمى اعتبر وإن كان زائدا على اللفظ فلا يعتبر."

(كتاب الأيمان، باب اليمين في الدخول والخروج، والسكنى، 3/ 743 - 744، ط: سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز."

(کتاب الطلاق، الباب السادس، فصل فیما تحل به الطلقة، 1/ 473، ط: رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144608100896

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں