ہمارے والد صاحب نے تین شادیاں کی تھیں، پہلی شادی سے 8 بیٹے اور ایک بیٹی تھی، بیٹی کا انتقال بچپن میں والد کی زندگی میں ہوگیا تھا، دوسری شادی سے صرف ایک بیٹا ہے، تیسری شادی سے 4 بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ اب والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے، ورثاء میں ایک بیوہ ( والد صاحب کی دو بیویاں ان کی زندگی میں انتقال کرگئی تھیں )، 13 بیٹے اور ایک بیٹی ہے، مرحوم کے والدین ان کی زندگی میں انتقال کرگئے تھے۔والد صاحب کی جائیداد میں صرف ایک ہوٹل تھا، اس میں ہم سات بھائی محنت کرتے تھے، والد صاحب بھی اس میں کام کرتے تھے، لیکن انتقال سے تقریباً 15 سال پہلے کام کرنا چھوڑدیا تھا، اس ہوٹل کی آمدنی سے دو اور ہوٹل کرایہ کے ہم نے لیے، ایک والد کی زندگی میں اور ایک ان کے انتقال کے بعد۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ والد صاحب کے ذاتی ہوٹل کے علاوہ اِن دوہوٹلوں میں ان ورثاء کا حصہ ہوگا، جنہوں نے محنت نہیں کی ہے؟ نیز یہ واضح رہے کہ والد صاحب کی حیات تک ہم سب والد صاحب کے ساتھ اکھٹے رہتے تھے، آمدنی و اخراجات سب ایک ساتھ ہوتی تھے۔
صورتِ مسئولہ میں والد مر حوم کی ذاتی جائیداد ( ہوٹل ) سے جو کاروبار بنایا گیا یہ بھی جائیداد کی طرح ترکہ میں شامل ہے، اس میں سب ورثاء کا حق ہے، کیوں کہ جتنا کاروبار والد کی حیات میں بنایا گیا تھا، چوں کہ والد کے ہوٹل کی آمدنی سے بنایا گیا تھا اس لیے اب یہ ترکہ میں شامل ہے، اور اس میں سب ورثاء کا حق ہے، اور بیٹوں کی محنت باپ کے ساتھ معاونت تھی، جس پر وہ اجر و ثواب کے مستحق ہوئے، اسی طرح جو کاروبار والد کی وفات کے بعد بنایا گیا ہے اس میں بھی سب ورثاء کا حق ہے، کیوں کہ مالِ وراثت جب تک تقسیم نہ ہو تب تک اس میں جتناجتنا اضافہ ہوگا سب ورثاء اپنے اپنے حصوں کے تناسب سے اس میں حق دار ہوں گے۔
مرحوم والد کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ترکہ میں سے مرحوم کی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحوم پر کوئی قرضہ ہو تو اسے کل ترکہ سے ادا کرنے کے بعد،اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے باقی ماندہ ترکہ کے ایک تہائی سے ادا کرنے کے بعد، باقی کل ترکہ (منقولہ و غیرمنقولہ) کو 216 حصوں میں تقسیم کرکے 27 حصے مرحوم کی بیوہ کو، 14 حصے مرحوم کے ہر بیٹے کو اور 7 حصے مرحوم کی بیٹی کو ملیں گے۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
میت ( والد ) : مسئلہ:216/8
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی |
1 | 7 | |||||||||||||
27 | 14 | 14 | 14 | 14 | 14 | 14 | 14 | 14 | 14 | 14 | 14 | 14 | 14 | 7 |
فیصد کے اعتبار سے 100 فیصد میں سے 12.5 فیصد مرحوم کی بیوہ کو، 6.481 فیصد مرحوم کے ہر بیٹے کو اور 3.240 فیصد مرحوم کی بیٹی کو ملے گا۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وكذا لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية، ولو اختلفوا في العمل والرأي اهـ وقدمنا أن هذا ليس شركة مفاوضة ما لم يصرحا بلفظها أو بمقتضياتها مع استيفاء شروطها، ثم هذا في غير الابن مع أبيه؛ لما في القنية الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له."
(کتاب الشرکة، فصل في الشركة الفاسدة، مطلب: اجتمعا في دار واحدة واكتسبا ولا يعلم التفاوت فهو بينهما بالسوية، 325/4، ط:سعید)
العقود الدريه ميں ہے:
"(سئل) في رجل ساكن في بيت أبيه في جملة عياله وصنعتهما متحدة يعينه بتعاطي أموره ولا يعرف للابن مال سابق فاجتمع مال بكسبه ويريد أن يختص به بدون وجه شرعي فهل جميع ما حصله بكسبه ملك لأبيه ولا شيء له فيه؟
(الجواب) : نعم جميع ما حصله بكسبه ملك لأبيه لا شيء له فيه حيث كان من جملة عياله والمعين له في أموره وأحواله وصنعتهما متحدة ولا يعرف للابن مال سابق؛ لأن الابن إذا كان في عيال الأب يكون معينا له فيما يصنع كما صرح بذلك في الخلاصة والبزازية ومجمع الفتاوى."
(كتاب الدعوى، ج:2، ص:17، ط:دار المعرفة)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"رجل دفع إلى ابنه في صحته مالا يتصرف فيه ففعل وكثر ذلك فمات الأب إن أعطاه هبة فالكل له، وإن دفع إليه لأن يعمل فيه للأب فهو ميراث، كذا في جواهر الفتاوى."
( کتاب الھبة، الباب السادس في الهبة للصغير، ج:4، ص:392، ط:دار الفکر)
العقود الدریہ میں ہے:
"(سئل) في إخوة خمسة تلقوا تركة عن أبيهم فأخذوا في الاكتساب والعمل فيها جملة كل على قدر استطاعته في مدة معلومة وحصل ربح في المدة وورد على الشركة غرامة دفعوها من المال فهل تكون الشركة وما حصلوا بالاكتساب بينهم سوية وإن اختلفوا في العمل والرأي كثرة وصوابا؟
(الجواب) : نعم إذ كل واحد منهم يعمل لنفسه وإخوته على وجه الشركة وأجاب الخير الرملي بقوله هو بينهما سوية حيث لا يميز كسب هذا من كسب هذا ولا يختص أحدهما به ولا بزيادة على الآخر إذ التفاوت ساقط كملتقطي السنابل إذا خلطا ما التقطا، فالظاهر أنها شركة ملك لا يجري فيها تفاوت في الربح بل يكون ما في أيديهم بينهم سوية كما مر وهذه المسألة تقع كثيرا خصوصا في أهل القرى حيث يموت الميت منهم وتبقى تركته بين أيدي ورثته بلا قسمة يعملون فيها وربما تعددت الأموات وهم على ذلك."
(كتاب الشركة، 93/1، ط:دار المعرفة)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144608101207
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن