ہمارے والد صاحب کا 2018ء میں انتقال ہوچکا ہے، والد مرحوم کی ایک دکان تھی ، جس میں والد صاحب کے ساتھ کچھ بیٹے کام کرتے تھے، ایک بھائی الگ کام کرتا تھا، اس بھائی نے دکان میں کوئی محنت نہیں کی، وہ سرکاری ملازم تھا، اب مسئلہ یہ ہےکہ ہم بھائیوں نے مل کر دکان کا کام بڑھا یا ،دوسری جگہ بھی کاروبار کیا ، لیکن اس کی بھی اصل بنیاد یہ دکان تھی ، اب ہم والد مرحوم کا ترکہ تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔
پوچھنا یہ ہےکہ اس دکان کو ہم نے جو ترقی دی اوروالد صاحب کی جائیداد میں اضافہ کیا، اس میں ہمارے دیگر بہن، بھائی (جو ہمارے ساتھ دکان کی ترقی میں شامل نہیں تھےان )کا حصہ ہوگا یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں والد کے انتقال کے بعد مذکورہ دکان ان کے ترکہ میں شامل تھی ، جس میں تمام ورثاء حصہ دار تھے، لیکن والد مرحوم کا ترکہ تقسیم ہونے سے پہلے جوبعض ورثاء نے اس کاروبار کو ترقی دے کر اس میں مزید جو اضافہ کیا ہے، چوں کہ اس اضافہ کا اصل ذریعہ والد کا ترکہ ہی ہے جس میں تمام ورثاء اپنے اپنے حصے کے بقدر شریک تھے، لہذا اس مذکورہ دکان اوراس دکان کی بنیاد پر حاصل ہونے والے اضافے میں بھی تمام ورثاء اپنے حصوں کے بقدر شریک ہوں گے، خواہ ان ورثاء کا اس اضافہ میں عمل دخل ہو یا نہ ہو، لہذا مرحوم والد کاترکہ تمام ورثاء (مرحوم کی تمام اولاد)میں ان کے شرعی حصوں کے موافق تقسیم کردینا چاہیے۔
ترکہ کی تقسیم کی تفصیل ورثاء کی وضاحت کے بعد معلوم کرسکتے ہیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية، ولو اختلفوا في العمل والرأي."
(كتاب الشركة، فصل في الشركة الفاسدة، ج:4، ص:325، ط:دار الفكر)
فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:
"مشترک ترکہ سے جاری دکان کے ساز و سامان کی تقسیم
سوال: عمر و وخالد ہر دو برادر نے دکان شرکت میں کی ، اور عمرو اپنا اور اپنے اہل وعیال کا خرچ دوسری جگہ سے کرتے تھے، اور خالد اپنے اہل و عیال کا خرچ دکان ہی میں سے کرتے تھے اور یہ دکان مشترک ترکہ سے جاری تھی ، اب سوال یہ ہے کہ ترکہ اثاثہ دکان کی تقسیم کس طرح ہوگی ؟ آیا اس اثاثہ دکان کی تقسیم ہو گی جو مورث اعلی کے انتقال کے وقت موجود تھا یا کل اثاثہ اور اس وقت تک جو منافع ہوا وہ بھی تقسیم ہوگا ؟ خالد کا انتقال ہو گیا اس کے ورثہ موجود ہیں۔
الجواب : دکان کا تمام سامان جواب تک مع منافع موجود ہے دونوں بھائیوں عمر و و خالد پر برابر تقسیم ہو گا، خالد کا نصف حصہ اس کے وارثوں کو ملے گا، اور عمر و اپنے نصف کا خود مالک ہے ۔ "
(کتاب الشرکہ، ج:13، ص:92، ط:دار الاشاعت، کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144605102120
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن