بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1446ھ 25 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

والدہ کا اپنی بیٹی کے نام پورشن کروانا


سوال

شوہر نے اپنی زندگی میں بیوی کے نام پر ایک پورشن کروایا، لیکن شوہر انتقال کے وقت تک خود بھی اسی گھر میں رہتے رہے، شوہر کے انتقال کے بعد شوہر کا مابقیہ ترکہ تمام ورثاء میں شرعی اعتبار سے تقسیم کردیا تھا، مگر مذکورہ مکان بیوہ کے قبضہ میں ہی رہنے دیا، کیوں کہ شوہر نے اپنی زندگی میں ہی کہہ دیا تھا کہ یہ مکان میری بیو ی کا ہے، اب شوہر کے انتقال کے بعد بیوہ وہ جگہ  اپنی مرضی سےاپنی بیٹی کے نام کروانا چاہ رہی ہیں ، شریعت کی نظر میں  ایسا کرنے میں  کوئی مسئلہ تو نہیں ہے؟

میں اپنی والدہ کی ایک ہی بیٹی ہوں، اس کے علاوہ میری والدہ کی کوئی اولاد نہیں ہے، البتہ میری والدہ کے تین بھائی اور تین بہنیں ہیں، نیز شوہر کے ورثاء میں ایک بیوہ، ایک بیٹی، ایک بھائی اور تین بہنیں ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ  ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک  ومختار ہوتا ہے، وہ ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، کسی کو یہ حق نہیں  ہے کہ اس کو اس کی اپنی ملک میں تصرف  کرنے سے منع کرے ،نیز والد کی زندگی میں اولاد وغیرہ کا اس کی جائیداد میں   کوئی حق  و حصہ  نہیں  ہوتا،  اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل  ہوتاہے،  تاہم   اگر صاحبِ جائیداد اپنی  زندگی میں  اپنی جائیداد  خوشی  ورضا سے   اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے  وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) کرنے میں برابری ضروری ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ہے، جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

"و عن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلامًا، فقال: «أكلّ ولدك نحلت مثله؟» قال: لا، قال: «فأرجعه». وفي رواية ... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»".

(مشکوٰۃ  المصابیح، ج:1، ص:261، باب العطایا، ط: قدیمی)

ترجمہ:

حضرت نعمان ابن بشیرؓ  کے بارے  منقول ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر ؓ) انہیں  رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام عطا کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو، ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔

(مظاہر حق،  باب العطایا، ج:3، ص:193، ط؛ دارالاشاعت)

  اور صاحبِ جائیداد کی طرف سے  اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان ہبہ کرنے کا شرعی  طریقہ یہ ہے کہ   اپنی جائیداد میں سے  اپنے  لیے   جتنا چاہے رکھ لے؛ تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اور بقیہ مال اپنی  تمام  اولاد میں برابر تقسیم کردے یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے،  نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے، ورنہ گناہ گار ہوگا اور اس صورت میں ایسی تقسیم شرعاً غیر منصفانہ کہلائے گی۔

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کی والدہ کا اپنی بیٹی کو مذکورہ پورشن  مکمل قبضہ وتصرف کے ساتھ ہبہ کرنا جائز ہےمگریہ کہ دیگر ورثاء کو محروم کرنے کا مقصد نہ ہو۔ 

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أما تفسيرها شرعا فهي تمليك عين بلا عوض، كذا في الكنز."

(کتاب الھبة، الباب الأول تفسير الهبة، ج:4، ص:374، ط:دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية."

(کتاب الھبة، ج:5، ص:690، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512100217

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں