ہماری والدہ نے اپنے ذاتی پیسوں سے پہلے ایک مکان خریدا تھا، اس کو بیچ کر دوسرا مکان خریدا، اب والدہ یہ چاہ رہی ہیں کہ اس مکان کو بیچ کر اپنی اولاد کو شریعت کے اعتبار سے جس کا جتنا حصہ بنتا ہے سب کو تقسیم کر کے دے دیں، اولاد میں چار بیٹے، چار بیٹیاں ہیں، والد صاحب کا انتقال ہوچکا ہے،براہِ کرم راہنمائی فرمادیں کہ والدہ خود کتنا حصہ رکھ سکتی ہیں اور بیٹوں، بیٹیوں کو کتنا حصہ دینا چاہیے؟
واضح رہے کہ آپ کی والدہ اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کی خود اکیلی مالکہ ہیں، ان کے مملوکہ مکان پر کسی کا حق نہیں ہے، میراث کی تقسیم کا مسئلہ انتقال کے بعد جاری ہوتا ہے اور وہ اس وقت موجود شرعی ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہوتا ہے، کسی کے انتقال سے قبل میراث کی تقسیم کا حتمی طریقہ نہیں بتایا جاسکتا ہے ۔ البتہ زندگی میں اپنی جائے داد کو اولاد کے درمیان تقسیم کرنے کی حیثیت ہبہ اور تحفہ کی ہے، لہٰذا اگر آپ کی والدہ اپنی زندگی ہی میں اپنی جائے داد اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتی ہیں تو شرعاً اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی جائے داد میں سے اپنے لیے جتنا حصہ رکھنا چاہیں اتنا رکھ لیں کہ خدانخواستہ شدید ضرورت کے وقت محتاجی نہ ہو، اس کے بعد باقی جائے داد اپنے تمام بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان برابر ،برابر تقسیم کردیں، بلاوجہ کسی کو کم اور کسی کو زیادہ نہ دیں؛ کیوں کہ ہبہ (تحفہ) کے بارے میں شریعتِ مطہرہ کی ہدایت یہ ہے کہ تمام بیٹے اور بیٹیوں میں برابری رکھی جائے، بلاوجہ کسی کو کم اور کسی کو زیادہ دینے سے آدمی گناہ گار ہوتا ہے۔ البتہ اگر کسی بیٹے یا بیٹی کو زیادہ دِین دار یا خدمت گزار یا ضرورت مند ہونے کی وجہ سے دیگر کے مقابلے میں کچھ زائد دینا چاہے تو اس کی گنجائش ہے۔ دوسری بات یہ بھی ضروری ہے کہ جائے داد تقسیم کرکے ہر ایک کو اس کے حصہ پر باقاعدہ ایسا قبضہ دے دیا جائے کہ اس کو اس میں تصرف کرنے کا پورا اختیار ہو، ورنہ شرعاً یہ ہبہ معتبر نہیں ہوگا۔
حدیث شریف میں ہے:
"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»."
(مشکاۃ المصابیح ،باب العطایا، 1/ 261،قدیمی)
ترجمہ:"حضرت نعمان ابن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا: ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ …… آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔"
(مظاہر حق، باب العطایا،ج:3،ص:193، ط: دارالاشاعت)
فتاوی شامی میں ہے :
"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه - صلى الله عليه وسلم - قال «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرا أحدا لآثرت النساء على الرجال» رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم» فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى وقال محمد: ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزيا إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف، وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل، وليس عند المحققين من أهل المذهب فريضة شرعية في باب الوقف إلا هذه بموجب الحديث المذكور، والظاهر من حال المسلم اجتناب المكروه، فلا تنصرف الفريضة الشرعية في باب الوقف إلا إلى التسوية والعرف لا يعارض النص هذا خلاصة ما في هذه الرسالة، وذكر فيها أنه أفتى بذلك شيخ الإسلام محمد الحجازي الشافعي والشيخ سالم السنهوري المالكي والقاضي تاج الدين الحنفي وغيرهم اهـ."
(کتاب الوقف،4/ 444،سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609101924
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن