میں نے 17 سال نوکری کی ہے، بیٹی کی پیدائش کے بعد میں نے چھوڑ دیا ہے، میں اپنی بچت اپنی والدہ پر خرچ کررہی ہوں، ان کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، اب میری بچت ختم ہونے والی ہے، بہت کم اپنی والدہ کےعلاج یا مدد ہو پائے گی، اصل میں، میں عید الاضحی کے لیے پریشان ہوں، میں جانور کی قربانی کے لیے اہل ہوں، لیکن پیسوں کی کم ہونے کی وجہ سے مجھے خطرہ ہے کہ اگر میں قربانی پر رقم خرچ کرتی ہوں تو میں ماں کی مدد کیسے کروں گی؟میں ہر وقت اس کی مدد کرنا چاہتی ہوں ،یہ بھی ایک ذمہ داری ہے، کیوں کہ میرے والد زندہ نہیں ہے، لیکن جانور کی قربانی کے لیے بہت زیادہ رقم درکار ہے ، میں ایسی صورت حال میں کیا کروں؟
بصورتِ مسئولہ اگر عید الاضحٰی کے ایام میں سائلہ کے پاس جمع شدہ رقم ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو، یا یہ رقم تو ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت سے کم ہو لیکن اس کے علاوہ ضرورت سے زائد اتنا مال یا سامان موجود ہو کہ رقم اور سامان کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر یا اس سے زائد ہو تو سائلہ پر قربانی واجب ہوگی۔ اور جس پر قربانی واجب ہو ، اس کے لیے قربانی چھوڑ کر قربانی کی رقم سےامدادکرنا شرعًا درست نہیں ہے، اس طرح کرنے سے قربانی ادا نہیں ہوگی اور ایسے شخص کو اگر چہ صدقہ کرنے کا ثواب تو مل جائے گا، لیکن واجب قربانی چھوڑنے پر گناہ گار ہوگا، قربانی کرنا ایک مستقل واجب عبادت ہے، اور والدہ کی مدد کرنا ایک دوسری عبادت ہے ،دونوں نیکیوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے،لیکن اگر ممکن نہ ہو تو واجب کو ترجیح دینا چاہیے؛ لہذا سائلہ کو ایسی صورت میں والدہ کی خدمت کے ساتھ قربانی بھی کرنی ہوگی، سائلہ کسی جگہ میں اجتماعی قربانی میں حصہ ڈال دے، علیحدہ بکرا وغیرہ خریدنا لازم نہیں ہے، عام طور پر اجتماعی قربانی میں رقم کم لگتی ہے۔
اور اگر سائلہ کے پاس جمع شدہ رقم ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت سے کم ہے اور ضرورت سے زائد اتنا مال اور سامان بھی موجود نہیں ہے کہ مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت تک پہنچے تو سائلہ پر قربانی واجب نہیں ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر)
(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية، ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً، وقيل: لويدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل: قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفاً، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم."
( کتاب الأضحیة،312/6، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)
وفیہ ایضاً:
"(و) تجب (على موسر) ولو صغيرا (يسار الفطرة) على الأرجح...(النفقة لأصوله)۔۔۔(الفقراء) ولو قادرين على الكسب""(قوله ولو قادرين على الكسب) جزم به في الهداية، فالمعتبر في إيجاب نفقة الوالدين مجرد الفقر"
(کتاب الطلاق، باب النفقة، 621/3، ط: سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الاختيار شرح المختار، ولايعتبر فيه وصف النماء، ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية،ووجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان".
( کتاب الزکوۃ، الباب الثامن فی صدقۃ الفطر، 191/1، ط: المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
" قربانی کس پر واجب ہے؟ کیا قیمت کا صدقہ کرنا کافی ہے؟
سوال (۸۳۷۸] : قربانی کس پر واجب ہے؟ کیا ممکن ہے کہ قربانی کے جانور کی قیمت کسی غریب کو دیدی جائے ، یا قربانی کرنی ضروری ہے؟
الجواب حامداً ومصلياً: جس کی ملک میں ساڑھے باون تولہ چاندی ، یا اتنی قیمت کی کوئی اور چیز حاجت اصلیہ سے زائد ہو، اس پر قربانی واجب ہے ، قربانی کے ایام میں قربانی واجب ہے، قیمت دینا کافی نہیں ، اگر کسی عارض کی وجہ سے قربانی نہیں کر سکا اور دن گزر گئے تو پھر قیمت کا صدقہ کرنا ضروری ہے ۔فقط واللہ تعالی اعلم ."
( کتاب الأضحیۃ،باب من یجب علیہ الأضحیۃ ومن لایجب، 309/17، ط: جامعہ فاروقیہ کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511102204
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن