بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

والدہ کو کسی نے بہو کے لیے چیز دی ہو، تو ملکیت کس کی ہوگی؟


سوال

میری والدہ کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے اور میری والدہ کے انتقال سے تقریباً 5 ماہ پہلے میری شادی کا سلسلہ شروع ہوا تھا، جس پر دلہن کو شادی کے موقع پر زیور چڑھانے کا مسئلہ ہوا (رقم نہ ہونے کی وجہ سے) تو امی نے مجھے کہا کہ میری ایک دوست ہیں جو کہ مالدار ہیں، ان سے ذکر کر دوں گی۔

میری امی نے پھر ان خاتون سے ذکر کیا، انہوں نے ایک سیٹ دیا جو کہ چاندی کا تھا لیکن اس پر سونے (گولڈ) کا پانی چڑھایا ہوا تھا اور یہ کہہ کر دیا کہ یہ اپنی بہو (دلہن) کو چڑھا دینا۔ پھر چوری مہندی والے دن اس سیٹ میں سے بندیا نکال کر چڑھا دی اور باقی سیٹ ایسا ہی رکھا رہا، یہ سوچ کر کہ ہم اس باقی سیٹ کو شادی والے دن دلہن کو پہنا دیں گے۔

لیکن، مجھے یہ سیٹ بہت اچھا لگتا تھا ،تو میں نے امی سے ضد کی کہ امی یہ سیٹ آپ رکھ لیں، آپ پر یہ سیٹ بہت اچھا لگے گا۔ اس پر امی نے کہا کہ نہیں بیٹا، موقع پر یہ سیٹ دلہن کو پہنائیں گے تو اچھا لگے گا۔ پھر کچھ دن گزرنے کے بعد امی نے خود کہا کہ اچھا یہ سیٹ مجھے دے دو، یہ سیٹ شادی والے دن میرے (امی) پر اچھا لگے گا۔ تو پھر انہوں نے (امی) رکھ لیا اور یہ میں نے کہہ کر دیا کہ امی، یہ آپ رکھ لیں (میری نیت ہمیشہ دینے کی تھی)۔ پھر یہ سیٹ انہوں نے شادی والے دن بھی پہنا۔

اب آپ سے یہ سوال ہے کہ:

  1. میں نے جو سیٹ امی کو دیا ، کیا میں اس سیٹ کا مالک بھی تھا یا نہیں، کیونکہ جس خاتون نے دیا، وہ یہ کہہ کر دیا تھا کہ یہ سیٹ اپنی بہو کو پہنا دینا؟
  2. دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر میں مالک نہیں تھا، تو کیا یہ سیٹ امی کی ملکیت بنا؟ اور یہ وراثت میں جائے گا؟
  3. تیسرا سوال یہ ہے کہ اصل ملکیت اس سیٹ کی کس کی ہے؟

براہِ مہربانی رہنمائی فرمائیں اور والدہ کی مغفرت کی دعا بھی فرمائیں۔ جزاک اللہ!

جواب

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ سائل کی والدہ نے اپنی بہو ہی کے لیے اس چاندی کے سیٹ کی گزارش کی تھی، اور نیز ان کی سہیلی نے ان کو بہو ہی کے نام دی تھی، لہذا یہ سیٹ سائل کی بیوی ہی کی ملکیت ہے، والدہ کی حیثیت وکیل کی ہے، ان کے سیٹ کو قبضہ  میں لینے سے ان کی ملکیت ثابت نہیں ہوگی، اور نہ ہی ان کی   وراثت میں داخل ہوگی۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان ركن التوكيل:فهو الإيجاب والقبول فالإيجاب من الموكل أن يقول: " وكلتك بكذا " أو " افعل كذا " أو " أذنت لك أن تفعل كذا " ونحوه. والقبول من الوكيل أن يقول: " قبلت " وما يجري مجراه."

(البدائع الصنائع: كتاب الوكالة، ج: 6 ص:20، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144607100630

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں