میرے چار بیٹے ہیں، ایک معذور ہے، تین بیٹے کماتے ہیں،دو میرے ساتھ رہتے ہیں اور ایک الگ رہتا ہے، یہ تینوں شادی شدہ ہیں، ان میں سے ایک سعودی عرب میں کماتا ہے، لیکن ان میں سے ایک بھی میرے ساتھ تعاون نہیں کرتا، بجلی کا بِل، گیس کا بِل، پانی کا خرچ وغیرہ کچھ بھی نہیں اٹھاتے، سارا خرچ میں خود ہی اٹھاتا ہوں، میری عمر زیادہ ہے، کمزور بھی ہوں، کمائی نہیں کر سکتا، سارے خرچے میں نے اپنی جائیداد بیچ کر اٹھائے ہیں، ایک پلاٹ میں نے اپنے ان تین بیٹوں میں تقسیم کیا، اس کے بعد میں اور میری بیوی بیمار ہوئےاس میں بھی انہوں نے کوئی تعاون نہیں کیا، ابھی بھی بیمار ہیں، ہمارے کپڑے بھی کوئی نہیں دھوتا، اب میں پوچھنا یہ چاہ رہا ہوں کہ:
1- ان کے اس عمل کا شرعی حکم کیا ہے؟
2- کیا میں ان کو اپنی جائیداد سے بے دخل کرسکتا ہوں؟ مجھے کیا کرنا چاہیے؟
1: واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے اولاد پر ان کےوالدین کے حقوق لازم کیاہے اور جائز کام میں حسبِ استطاعت ان کی اطاعت ضروری قرار دی ہے، اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں جہاں اپنی بندگی کی دعوت دی ہے وہیں والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم بھی فرمایا ہے اور اپنے شکر کے ساتھ والدین کے شکر کرنے کا بھی حکم دیاہے، چناں چہ ارشادِ باری تعالی ہے:
"وَإِذْ قالَ لُقْمَاْنُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ یبُنَيَّ لاتُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ، وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ بِوالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْناً عَلى وَهْنٍ وَّفِصالُهُ فِي عامَيْنِ أَنِ اشْكُرْلِي وَ لِوالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ." (سورة: لقمان، الأية:23،24)
’’ترجمہ:اور جب کہا لقمان نے اپنے بیٹے کو جب اس کو سمجھانے لگا اے بیٹے شریک نہ ٹھہرائیو اللہ کا بے شک شریک بنانا بھاری بےانصافی ہے، اور ہم نے تاکید کر دی انسان کو اس کے ماں باپ کے واسطے پیٹ میں رکھا اس کو اس کی ماں نے تھک تھک کر اور دودھ چھڑانا ہے اس کا دو برس میں کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا آخر مجھ ہی تک آنا ہے۔‘‘(بیان القرآن)
خاص کر جب والدین بوڑھے ہوجائیں تو ایسی حالت میں بھی شریعت نے والدین کو غصہ و ناراضگی میں زبان سے ’’اف‘‘ تک کا لفظ (کہ جس سے ان کو تکلیف ہو) کہنے سے منع کیا ہے یعنی والدین کو ایذا دینا تو در کنار! انہیں خالی ایسا لفظ جس سے انہیں تکلیف ہو زبان پر لانابھی منع ہے، چناں چہ قرآن کریم میں ہے:
"وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوٓاْ إِلَّآ إِيَّاهُ وَبِٱلۡوَٰلِدَيۡنِ إِحْسَانًاۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ ٱلْكِبَرَ أَحَدُهُمَآ أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا وَٱخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ ٱلذُّلِّ مِنَ ٱلرَّحمَةِ وَقُل رَّبِّ ٱرْحَمۡهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا."(سورة: الإسراء، الأية: 23،٢٤)
’’ترجمہ:اور حکم کر چکا تیرا رب کہ نہ پوجو اس کے سوائے اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اگر پہنچ جائے تیرے سامنے بڑھاپے کو ایک ان میں سے یا دونوں تو نہ کہہ ان کو ہوں اور نہ جھڑک ان کو اور کہہ ان سے بات ادب کی، اور جھکا دے ان کے آگے کندھے عاجزی کر نیاز مندی سے اور کہہ اے رب ان پر رحم کر جیسا پالا انہوں نے مجھ کو چھوٹا سا۔‘‘(بیان القرآن)
نیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی احادیث میں والدین سے اچھے سلوک اوراچھا معاملہ کرنے کاحکم فرمایا ہے اور ان کی نافرمانی سے روکا ہے اور جو اولاد ماں یا باپ کی نافرمانی کرے ان کے لیے سخت وعید دنیا و آخرت میں فرمائی ہیں، حتی کہ متعدد احادیث میں یہ وارد ہے کہ شب قدر جیسی مبارک رات جس میں اللہ تعالی کی مغفرت ، بخشش و رحمت بالکل عام ہوتی ہے، اس میں بھی سوائے چار آدمیوں کے اللہ تعالی سب امتِ مسلمہ کی مغفرت فرماتے ہیں، ان چار قسم کے لوگوں میں ایک شخص والدین کی نافرمانی کرنے والا ہے، جس کی اللہ تعالی اس مبارک مغفرت والی رات میں بھی معافی نہیں فرماتے ، لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے تینوں بیٹوں کو اپنی حرکتوں سے باز آجانا چاہیے، ان پر اپنے والدین کو راضی کرنا اور ان کی تمام ضروریات کو پورا کرنا اور ان کی خدمت کرنا شرعًا لازم اور ضروری ہے، ماں باپ کی نافرمانی ایسا گناہ ہے کہ اللہ تعالی اس کی سزا دنیا میں بھی دیتے ہیں اور آخرت میں بھی دیں گے۔
2- ملحوظ رہے کہ جائیداد سے عاق کرنے کاشریعتِ مطہرہ میں کوئی اعتبار نہیں، لہذا اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنے بیٹے کو اپنی جائیداد سے عاق اور بے دخل کردے تب بھی اس کے مرنے کے بعد بیٹا شرعی طور پر اس کا وارث ہوگا، البتہ زندگی میں ہر شخص اپنی جائیداد کا خود مالک ومختار ہوتا ہے، وہ ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، جس کو چاہے دے اور جس کو چاہے نہ دے، کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ اس کو اس کی اپنی ملک میں تصرف کرنے سے منع کرے ،لہذا سائل اپنی جائیداد زندگی ہی میں فروخت کرکے اپنی ضروریات میں خرچ کر لے تو یہ سائل کا اختیار ہے، نیز سائل کو یہ بھی اختیار ہے کہ اپنی جائیداد اپنے نیک بچوں کو اپنی زندگی میں ہی ہبہ کردے اور ہبہ تمام شرائط کے ساتھ کرے(قبضہ وغیرہ دے دے)اور نافرمان بیٹوں کو کچھ نہ دے، پھر اس نافرمان بیٹوں میں سے کسی بیٹے کو کوئی حق نہ ہوگا اور نہ ہی سائل کو اس پر کوئی گناہ ہوگا۔
"ولو أعطى بعض ولده شيئا دون البعض ، لزيادة رشده لابأس به، وإن كانا سواء لاينبغي أن يفضل، ولو كان ولده فاسقا فأراد أن يصرف ماله إلى وجوه الخير، ويحرمه عن الميراث، هذا خير من تركه ، لأن فيه إعانة على المعصية."
(كتاب الهبة، ج:4، ص:400، ط: مكتبة رشيدية)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
" ولو كان ولده فاسقا واراد ان يصرف ماله إلي وجوه الخير ويحرمه عن الميراث هذا خير من تركه كذا فى الخلاصة ".
(كتاب الهبة، الباب السادس، ج:4، ص:391، ط: دارالفكر)
امداد الأحکام میں ہے:
’’عاق اور محروم الارث کرنے کا جو دستور ہے مثلاً والد کہہ دیتا ہے کہ میرے فلاں بیٹے کو میرے ترکہ میں سے کچھ حصہ نہ ملے اس کی شرع میں کوئی اصل نہیں ۔ اس طرح کہنے کے بعد بھی وہ وارث ہو گا ، اگر عاق کر دینے کی وجہ سے دوسرے ورثاء نے اس کا حصہ نہ دیا تو وہ گناہ گار ہوں گے ۔ اس لئے محروم الارث کرنا بالکل فضول ہے، البتہ اگر اپنے نیک بخت بچوں کی زندگی میں ہبہ دیدے اور ہبہ تمام شرائط کے ساتھ پورا کر دے پھر اس فاسق کو کوئی حق نہ ہوگا اور اس ہبہ کرنےمیں کوئی گناہ نہیں، بلکہ بہتر ہے۔‘‘
( كتاب الفرائض، صرف عاق لکھ دینے سے وارث محروم نہیں ہوگا اور فاسق بیٹے کو جائیداد سے محروم کرنے کا طریقہ ، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144601101653
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن