بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

والدین کی خدمت کی وجہ سے شادی کرنے سے انکار کرنے کا حکم


سوال

میرا بیٹا 32 سال کا ہے اور وہ شادی سے انکار کرتا ہے،کہتا ہے کہ میں والدین کی خدمت کروں گا، شادی نہیں کروں گا، براہِ مہربانی اس معاملے میں راہنمائی فرمادیں۔

جواب

واضح رہے کہ  اگر کوئی شخص جسمانی اعتبار سے تندرست ہو، مہر اور نان نفقہ ادا کرنے پر قادر ہو ،  نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ اور معصیت  میں مبتلا ہو جانے کا یقین ہو، اور نکاح کی صورت میں   بیوی پر ظلم  و زیادتی کا اندیشہ نہ ہو،   تو ایسے شخص پر نکاح کرنا واجب ہے۔ اور اگر نکاح نہ کرنے کی صورت میں برائی میں پڑنے کا اندیشہ نہیں ، اور مالی و جسمانی اعتبار سے نکاح کرنے پر قادر ہے تو ایسے شخص کے لیے بھی نکاح کر لینا سنتِ مؤکدہ ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ نکاح اور شادی کرنا جنابِ رسول اللہ ﷺ کی سنت اور ثواب کا باعث عمل ہے، نیز شادی کی وجہ سے ہی انسان گناہوں سے محفوظ رہ سکتا ہے، اس لیے شریعتِ مطہرہ نے ہر مسلمان کو نکاح اور شادی کرنے کی تاکید کی ہے، والدین کی خدمت کرنا بھی بہت بڑی سعادت اور ثواب کا کام ہے، لیکن چوں کہ ان دونوں کاموں یعنی شادی کرنے اور والدین کی خدمت کرنے میں آپس میں کوئی  ٹکراؤ نہیں ہے، اس لیے شادی کی وجہ سے والدین کی خدمت ترک کرنا یا والدین کی خدمت کی وجہ سے شادی ترک کرنا شریعت کے مزاج و منشا کے خلاف ہے، لہٰذا آپ کے بیٹے کو چاہیے کہ شادی سے انکار کر نے  کے بجائے جلد سے جلد نکاح و شادی کرلے اور شادی کے بعد بھی حسبِ سابق والدین کی خدمت کرتا رہے۔خصوصاً جب والدین خود بیٹے کے نکاح کی فکر میں ہوں تو بیٹے کو یہ موقع غنیمت سمجھنا چاہیے، البتہ شادی سے انکار کسی خاص شرعی وجہ سے ہو تو والدین کو اس سے آگاہ کردیاجائے۔ 

حدیث شریف میں ہے:

 "أخبرنا حميد بن أبي حميد الطويل، أنه سمع أنس بن مالك رضي الله عنه، يقول: جاء ثلاثة رهط إلى بيوت أزواج النبي صلى الله عليه وسلم، يسألون عن عبادة النبي صلى الله عليه وسلم، فلما أخبروا كأنهم تقالوها، فقالوا: وأين نحن من النبي صلى الله عليه وسلم؟ قد غفر له ما تقدم من ذنبه وما تأخر، قال أحدهم: أما أنا فإني أصلي الليل أبدا، وقال آخر: أنا أصوم الدهر ولا أفطر، وقال آخر: أنا أعتزل النساء فلا أتزوج أبدا، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم إليهم، فقال: «أنتم الذين قلتم كذا وكذا، أما والله إني لأخشاكم لله وأتقاكم له، لكني أصوم وأفطر، وأصلي وأرقد، وأتزوج النساء، فمن رغب عن سنتي فليس مني»".

(صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح، رقم الحدیث:5063، ج:7، ص:2، ط:دارطوق النجاۃ)

ترجمہ:"ہم کو حمید بن ابی حمید طویل نے خبر دی، انہوں نے انس بن مالک سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ تین حضرات یعنی علی بن ابی طالب، عبداللہ بن عمرو بن العاص اور عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے، جب انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بتایا گیا تو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا کہ ہمارا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا مقابلہ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کر دی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں؟ سن لو! اللہ تعالیٰ کی قسم! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں۔ نماز پڑھتا ہوں (رات میں) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں، پس جس نے میرے طریقے سے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔"

شرح سنن ابن ماجه للسيوطي میں ہے:

"فمن لم يعمل بسنتي أي اعرض عن طريقتي استهانة وزهدا فيها لا كسلا وتهاونا فليس مني أي من اشياعي كذا في المرقاة قال في الفتح المراد بالسنة الطريقة لا التي مقابل الفرض والرغبة عن الشيء الاعراض عنه الى غيره والمراد من ترك طريقتي وأخذ طريقة غيري فليس مني ولمح بذلك الى الطريقة الرهبانية فإنهم الذين ابتدعوا التشديد كما وصفهم الله تعالى وقد عابهم بأنهم ما دعوا بما التزموها وطريقة النبي صلى الله عليه وسلم الحنيفية السمحاء فيفطر ليتقوى على الصيام وينام ليتقوى على القيام ويتزوج لكسر الشهوة واعفاف النفس وقوله فليس مني ان كانت الرغبة عنه بضرب من التأويل يعذر صاحبه فيه فمعنى انه ليس مني أي ليس على طريقتي ولا يلزم ان يخرج وان كانت الرغبة اعراضا فمعنى ليس مني على ملتي لأن اعتقاد ذلك نوع من الكفر انتهى مع اختصار."

(باب صدقة الفطر، ص:133، ط:قدیمی کتب خانہ)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ويكون واجبا عند التوقان) فإن تيقن الزنا إلا به فرض نهاية. وهذا إن ملك المهر والنفقة، وإلا فلا إثم بتركه بدائع (و) يكون (سنة) مؤكدة في الأصح فيأثم بتركه ويثاب إن نوى تحصينا وولدا (حال الاعتدال) أي القدرة على وطء ومهر ونفقة ورجح في النهر وجوبه للمواظبة عليه والإنكار على من رغب عنه (، ومكروها لخوف الجور) فإن تيقنه حرم ذلك.

(قوله: عند التوقان) ... والمراد شدة الاشتياق كما في الزيلعي: أي بحيث يخاف الوقوع في الزنا لو لم يتزوج إذ لا يلزم من الاشتياق إلى الجماع الخوف المذكور بحر.

قلت: وكذا فيما يظهر لو كان لا يمكنه منع نفسه عن النظر المحرم أو عن الاستمناء بالكف، فيجب التزوج، وإن لم يخف الوقوع في الزنا (قوله: فإن تيقن الزنا إلا به فرض) أي بأن كان لا يمكنه الاحتراز عن الزنا إلا به؛ لأن ما لا يتوصل إلى ترك الحرام إلا به يكون فرضا بحر... (قوله: وهذا إن ملك المهر والنفقة) هذا الشرط راجع إلى القسمين أعني الواجب والفرض، وزاد في البحر شرطا آخر فيهما: وهو عدم خوف الجور أي الظلم قال: فإن تعارض خوف الوقوع في الزنا لو لم يتزوج وخوف الجور لو تزوج قدم الثاني فلا افتراض، بل يكره أفاده الكمال في الفتح ولعله؛ لأن الجور معصية متعلقة بالعباد، والمنع من الزنا من حقوق الله تعالى وحق العبد مقدم عند التعارض لاحتياجه وغنى المولى تعالى. اهـ...

(قوله: سنة مؤكدة في الأصح) وهو محمل القول بالاستحباب وكثيرا ما يتساهل في إطلاق المستحب على السنة وقيل: فرض كفاية، وقيل واجب كفاية وتمامه في الفتح، وقيل واجب عينا ورجحه في النهر كما يأتي قال في البحر ودليل السنية حالة الاعتدال الاقتداء بحاله - صلى الله عليه وسلم - في نفسه ورده على من أراد من أمته التخلي للعبادة كما في الصحيحين ردا بليغا بقوله «فمن رغب عن سنتي فليس مني» كما أوضحه في الفتح. اهـ.

وهو أفضل من الاشتغال بتعلم وتعليم كما في درر البحار وقدمنا أنه أفضل من التخلي للنوافل (قوله: فيأثم بتركه) لأن الصحيح أن ترك المؤكدة مؤثم كما علم في الصلاة بحر، وقدمنا في سنن الصلاة أن اللاحق بتركها إثم يسير وأن المراد الترك مع الإصرار وبهذا فارقت المؤكدة الواجب، وإن كان مقتضى كلام البدائع في الإمامة أنه لا فرق بينهما إلا في العبارة.

(قوله: ويثاب إن نوى تحصينها) أي منع نفسه ونفسها عن الحرام، وكذا لو نوى مجرد الاتباع وامتثال الأمر بخلاف ما لو نوى مجرد قضاء الشهوة واللذة (قوله: أي القدرة على وطء) أي الاعتدال في التوقان أن لا يكون بالمعنى المار في الواجب والفرض وهو شدة الاشتياق، وأن لا يكون في غاية الفتور كالعنين، ولذا فسره في شرحه على الملتقى بأن يكون بين الفتور والشوق وزاد المهر والنفقة؛ لأن العجز عنهما يسقط الفرض فيسقط السنية بالأولى، وفي البحر والمراد حالة القدرة على الوطء، والمهر والنفقة مع عدم الخوف من الزنا والجور وترك الفرائض والسنن، فلو لم يقدر على واحد من الثلاثة أو خاف واحدا من الثلاثة أي الأخيرة فليس معتدلا فلا يكون سنة في حقه كما أفاده في البدائع. اهـ...(قوله: ومكروها) أي تحريما بحر (قوله: فإن تيقنه) أي تيقن الجور حرم؛ لأن النكاح إنما شرع لمصلحة تحصين النفس، وتحصيل الثواب، وبالجور يأثم ويرتكب المحرمات فتنعدم المصالح لرجحان هذه المفاسد بحر وترك الشارح قسما سادسا ذكره في البحر عن المجتبى وهو الإباحة إن خاف العجز عن الإيفاء بموجبه. اهـ. أي خوفا غير راجح، وإلا كان مكروها تحريما؛ لأن عدم الجور من مواجبه والظاهر أنه إذا لم يقصد إقامة السنة بل قصد مجرد التوصل إلى قضاء الشهوة ولم يخف شيئا لم يثب عليه إذ لا ثواب إلا بالنية فيكون مباحا أيضا كالوطء لقضاء الشهوة لكن «لما قيل له - صلى الله عليه وسلم - إن أحدنا يقضي شهوته فكيف يثاب فقال - صلى الله عليه وسلم - ما معناه أرأيت لو وضعها في محرم أما كان يعاقب» فيفيد الثواب مطلقا إلا أن يقال المراد في الحديث قضاء الشهوة لأجل تحصين النفس، وقد صرح في الأشباه بأن النكاح سنة مؤكدة ... الخ."

(كتاب النكاح، ج:3، ص:6-8، ط:سعيد) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610100217

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں