بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کی وفات، چالیسویں یا برسی کی وجہ سے قربانی نہ کرنا


سوال

 والدین کی وفات ، چالیسویں  یا برسی کی وجہ سے قربانی نہ کرنے کا کیا حکم ہے؟مباح ہے، جائز ہے، مکروہ ہے یا پھر ناجائزہے؟

جواب

واضح رہے کہ میت کاچالیسواں یا برسی کرنے کی اسلام میں کوئی اصل نہیں ہے، بلکہ یہ  بدعت اورناجائز  ہونے کی وجہ سے گناہ  کاکام ہے، لہذا  ہر مسلمان کا اس سے بچناضروری  اور واجب ہے، جب کہ قربانی ایک واجب اور ضروری عبادت ہے اور یہ ہر  اس عاقل، بالغ، مقیم شخص(مرد ہو عورت)  پر لازم ہےجو صاحبِ نصاب ہو،یعنی  جس کے پاس   ساڑھے  سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر نقد رقم یا مال تجارت یا ضرورت اصلیہ سے زائد مال و اسباب ہو، جو شخص اس کے باوجود قربانی نہ کرے اس کے بارے میں احادیثِ مبارکہ میں وعیدیں آئی ہیں، چناں چہ ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:’’جو شخص صاحبِ حیثیت ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے، وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے‘‘، اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ جو شخص صاحبِ نصاب ہو ، اس کاقر بانی نہ کرنا کبیرہ گناہ ہے۔

بہرحال  صورتِ مسئولہ میں  جس شخص پر قربانی واجب ہو اوروہ والدین کی وفات یا ان کے  چالیسویں یا برسی وغیرہ کی وجہ سے قربانی نہ کرے، تو یہ ناجائز اور گناہ ہے۔

سننِ ابنِ ماجہ میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من كان له سعة، ولم يضح، فلا يقربن مصلانا."

(كتاب الأضاحي، باب الأضاحي واجبة أم لا؟، ج:2، ص:1044، ط: دار أحياء التراث العربي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وحكمها) (الخروج عن عهدة الواجب) في الدنيا (والوصول إلى الثواب) بفضل الله تعالى (في العقبى) مع صحة النية إذ لا ثواب بدونها (فتجب) التضحية: أي إراقة الدم من النعم عملا لا اعتقادا بعينها أو بقيمتها لو مضت أيامها (على حر مسلم مقيم...( موسر) يسار الفطرة (عن نفسه لا عن طفله شاة) بالرفع بدل من ضمير تجب أو فاعله (أو سبع بدنة) ."

(كتاب الأضحية، ج:6، ص: 315، ط: سعيد)

حجۃ اللہ البالغۃ میں ہے:

"قال صلی الله عليه وسلم:"لا ‌تجعلوا ‌زيارة ‌قبري عيدا" أقول: هذا إشارة إلى سد مدخل التحريف كما فعل اليهود والنصارى بقبور أنبيائهم، وجعلوها عيدا وموسما بمنزلة الحج."

(من أبواب الإحسان، الأذكار ومايتعلق بها، ج:2، ص:120، ط: دار الجيل)

کفایت المفتی میں  ہے:

’’   تیجہ،  دسویں،  چالیسویں وغیر ہاکی تعیین بدعت ہے  ۔‘‘

(کتاب الحظر والاباحۃ، ج:9، ص:60، ط: دار الاشاعت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144511102179

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں