میں بچپن سے ایک لڑکی کو پسند کرتا ہوں ، اور اسے بھی میں پسند ہوں،ہم شادی کرنا چاہتے ہیں ،لیکن میرے ابو نہیں مان رہے ، بہت کوشش کی ہے میں نے، اب میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی مرضی سے اس لڑکی سے نکاح کر لوں، تو کیا میرا ایسا کرنا صحیح ہے؟
واضح رہے کہ حدیث نبوی میں ایسی لڑکی کے ساتھ شادی کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، کہ جو دین کے اعتبار سے بہتر ہو، کسی لڑکی کے محض مال وجمال کی وجہ سے اس سے شادی کرنے کو پسند نہیں کیا ہے ،لہذا اگر مذکورہ لڑکی دین دارہے اور سائل کی وجہ ترجیح بھی دین ہی ہے تو والد کو چاہئے کہ بیٹے( سائل ) کو نکاح کرنے کی اجازت دے دے، تاہم اگر اس لڑکی میں دینی خوبی کے باوجود والد اجازت نہیں دیتا ،تو سائل چونکہ عاقل بالغ ہے اس لیے شرعاً وہ اپنی مرضی سے مذکورہ لڑکی سے نکاح کر سکتا ہے ، البتہ اگر دینی اعتبار سے کوئی کمزوری ہو تو ایسی صورت میں والد کی بات کو مان لینے میں سائل کے لیے زیادہ عافیت ہے۔
سنن الترمذی میں ہے:
"عن جابر، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إن المرأة تنكح على دينها، ومالها، وجمالها، فعليك بذات الدين، تربت يداك» وفي الباب عن عوف بن مالك، وعائشة، وعبد الله بن عمرو، وأبي سعيد.: حديث جابر حديث حسن صحيح."
ترجمہ:"حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :عورت سے نکاح اس کی دین داری ،اس کے مال اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے کیا جاتا ہے لیکن تو دیندار عورت سے نکاح کو لازم پکڑلو، تمہارے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں ۔"
(أبواب النکاح، باب ماجآء أن المراۃ تنکح علی ثلاث خصال، ج:2، ص:382، رقم الحدیث:1086، ط: دار الغرب الإسلامی)
تحفۃ الأحوذی میں ہے:
"قوله (تنكح) بصيغة المجهول (على دينها) أي لأجل دينها فعلى بمعنى اللام لما في الصحيحين تنكح المرأة لأربع لمالها ولحسبها ولجمالها ولدينهاالحديث (فعليك بذات الدين) قال القاضي رحمه الله من عادة الناس أن يرغبوا في النساء ويختاروها لإحدى الخصال واللائق بذوي المروءات وأرباب الديانات أن يكون الدين مطمح نظرهم فيما يأتون ويذرون لا سيما فيما يدوم أمره ويعظم خطره انتهى.
وقد وقع في حديث عبد الله بن عمر وعند بن ماجه والبزار والبيهقي رفعه لا تزوجوا النساء لحسنهن فعسى حسنهن أن يرديهن ولا تزوجوهن لأموالهن فعسى أموالهن أن تطغيهن ولكن تزوجوهن على الدين ولأمة سوداء ذات دين أفضل."
(أبواب النکاح، باب ماجآء أن المرأۃ تنکح علی ثلاث خصال، ج:4، ص:174، ط:دار الکتب العلمیة)
فتاوی عالمگیریہ میں ہے:
"الكفاءة معتبرة في الرجال للنساء للزوم النكاح، كذا في محيط السرخسي ولا تعتبر في جانب النساء للرجال، كذا في البدائع. فإذا تزوجت المرأة رجلا خيرا منها؛ فليس للولي أن يفرق بينهما فإن الولي لا يتعير بأن يكون تحت الرجل من لا يكافئوه، كذا في شرح المبسوط للإمام السرخسي."
(کتاب النکاح، الباب الخامس، ج:1، ص:290، ط: دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144510101763
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن