کہتے ہیں ماں باپ دنیا سے چلے جائیں تو اولاد ان کے لیے ثواب کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ میری بالغ غیر شادی شدہ بیٹی چند ہفتے پہلے اللہ کے حضور پیش ہو چکی ہے۔ کیا والدین اس کے ثواب پہنچانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں؟ اگر ہاں تو بہترین طریقہ براۓ ایصالِ ثواب کون سا ہے؟
اللہ تعالیٰ آپ کو اس صدمے پر بہترین بدلہ اور اجر نصیب فرمائے، اور آپ کے غم کا مداوا فرمائے! آمین!
جس طرح والدین کے دنیا سے رخصت ہوجانے پر اولاد ان کے لیے ایصالِ ثواب کرسکتی ہے، اوروالدین تک یہ ثواب پہنچتا ہے، اسی طرح اگر اولاد کا انتقال ہوجائے اور والدین ان کے لیے ایصالِ ثواب کریں تو یہ بھی جائز ہے اور اولاد تک ان اعمال کا اجروثواب پہنچتا ہے۔
البتہ ایصالِ ثواب کا کوئی خاص طریقہ شریعت میں متعین نہیں ہے، نہ اس میں کسی دن کی قید ہے، نہ کسی خاص ذکر یا اعمال کی پابندی ہے اور نہ قرآنِ کریم کو ختم کرنا ضروری ہے؛ بلکہ بلاتعیین جو بھی بدنی یا مالی نفلی عبادت ہوسکے وہ کرکے اس کا ثواب میت کو پہنچایا جاسکتا ہے ۔
لہذا نفلی عمل (مثلاً صدقہ، نوافل، تلاوت، یا غریبوں کو کھانا کھلانے، کپڑے دینے وغیرہ)کے بعد صرف یہ نیت کرلیں یعنی دل میں یہ کہہ دیں کہ "یااللہ اس عمل کا ثواب میری بیٹی تک پہنچا دیں"یہ کافی ہے۔
میت کے ایصالِ ثواب کے لیے صدقہ جاریہ، کنویں کھدوانے، تلاوت اور حج وغیرہ کا ذکر احادیث میں موجود ہے، ان اعمال میں سے جو ممکن ہو، اس کا ایصالِ ثواب کرلیا کریں۔ قرآنِ پاک کی بعض سورتیں خاص فضائل رکھتی ہیں، مثلاً: سورۂ فاتحہ، سورۂ زلزال، سورۂ تکاثر، سورۂ کافرون، سورۂ اخلاص وغیرہ، اگر زیادہ مقدار میں تلاوت کا موقع نہ ہو تو یہ سورتیں تلاوت کرکے ان کا ثواب پہنچا دیجیے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144112200068
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن