بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

’’ولور‘‘ کے نام سے لڑکے والوں سے بھاری رقم لینے کی رسم کا حکم


سوال

بعض قوموں میں مہر کو ولور کا نام دیا جاتا ہے جس میں لاکھوں روپے لڑکے والوں سے لیے جاتے ہیں۔اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

’’ولور‘‘ کے نام سے جو رقم لی جاتی ہے وہ  بعض قوموں میں لڑکی کے رشتہ دار (باپ، بھائی وغیرہ) رشتہ دینے کے عوض لیتے ہیں اور بعض قوموں میں بطور مہر لی جاتی ہے، اس کا حکم یہ ہے کہ اگر لڑکی کے رشتہ دار (باپ یا بھائی وغیرہ) لڑکے والوں سے رشتہ دینے کے عوض بھاری رقم کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ شرعا ناجائز ہے؛ کیوں کہ یہ رشوت کے زمرے میں آتا ہے،  عام طور سے لڑکے والے جو یہ رقم دیتے ہیں وہ دل سے اس پر راضی نہیں ہوتے، صرف مجبوری میں شرمندگی سے بچنے کے لیے دیتے ہیں، اور اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ شادی کے بعد لڑکی کو ہمیشہ سسرال میں یہ طعنے دیے جاتے ہیں کہ ہم نے تمہیں اتنے لاکھ میں خریدا ہے اور لڑکی کے ساتھ بالکل غلاموں والا سلوک اور برتاؤ کیا جاتا ہے۔ اس لیے ’’ولور‘‘ کے نام سے لڑکے والوں سے بھاری رقم لینے کی جو رسم ہے یہ ناجائز اور واجب الترک ہے۔

اگر کسی قوم میں مہر کی رقم ’’ولور‘‘ کے نام سے  لینے کا رواج ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ مہرِ مثل عورت کا حق ہے، یعنی اس لڑکی کے باپ کے خاندان کی وہ لڑکیاں جو مال، جمال، دین، عمر، عقل، زمانہ، شہر، باکرہ یا ثیبہ وغیرہ  ہونے میں اس کے برابر ہوں، ان کا جتنا مہر  تھا اس کا بھی اتنا مہر  ہے، لیکن شریعت نے فریقین کو اختیار دیا ہے کہ باہمی رضامندی سے مہرِ مثل سے کم یا زیادہ مہر مقرر کرسکتے ہیں بشرط یہ کہ وہ دس درہم سے کم نہ ہو، اس کو  ”مہرِ مسمی“ کہتے ہیں اور نکاح کے وقت فریقین جو مہر باہمی رضامندی سے طے کریں اسی  کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوگی۔ البتہ استطاعت سے بہت زیادہ یا دکھلاوے کے لیے بہت زیادہ مہر مقرر کرنا شرعاً ناپسندیدہ ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 156):

(أخذ أهل المرأة شيئا عند التسليم فللزوج أن يسترده) لأنه رشوة.

قال في الدر:
"(وَ) الْحُرَّةُ (مَهْرُ مِثْلِهَا) الشَّرْعِيُّ (مَهْرُ مِثْلِهَا) اللُّغَوِيُّ: أَيْ مَهْرُ امْرَأَةٍ تُمَاثِلُهَا (مِنْ قَوْمِ أَبِيهَا) لَا أُمِّهَا إنْ لَمْ تَكُنْ مِنْ قَوْمِهِ كَبِنْتِ عَمِّهِ. وَفِي الْخُلَاصَةِ: يُعْتَبَرُ بِأَخَوَاتِهَا وَعَمَّاتِهَا، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَبِنْتُ الشَّقِيقَةِ وَبِنْتُ الْعَمِّ انْتَهَى وَمَفَادُهُ اعْتِبَارُ التَّرْتِيبِ فَلْيُحْفَظْ.

[الدر مع الرد : ٣/ ١٣٧]

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144112201369

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں