میرے بڑے بھائی نے اپنی زندگی میں اپنے بڑے بیٹے کے لیے ایک فلیٹ کی وصیت کی تھی، کیا یہ وصیت درست ہے ؟یہ فلیٹ صرف اس کے بڑے بیٹے کا ہوگا یا تمام ورثاء پر تقسیم ہوگا۔
واضح رہے کہ شرعاً اولاد کے لیے وصیت معتبر نہیں ہے ،اور نہ ہی ورثاء پر اس کی تعمیل ضروری ہے، اگر مورث اپنی زندگی میں کسی وارث کے لیے وصیت کرے بھی تو مورث کی وفات کے بعد ایسی وصیت دیگر ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوگی، اگر دیگر ورثاء سب بالغ ہوں اور انہوں نے اجازت دے دی تو اس وصیت کو نافذ کیا جائے گا، یا بعض ورثاء بالغ ہوں بعض نابالغ اور بالغ اجازت دے دیں تو ان کے حصے کے بقدر نافذ ہوگی، ورنہ اس وصیت پر عمل نہیں کیا جائے گا، لہذا صورت مسئولہ میں والدنے بڑے بیٹے کے لیے جو وصیت کی ہے یہ وصیت تمام ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوگی ،اگر تمام ورثاء عاقل و بالغ ہیں اور وہ اس کی اجازت دے دیتے ہیں تو یہ وصیت نافذ کی جائے گی، اگر وہ تمام ورثاء راضی نہ ہوں تو پھر یہ وصیت نافذ نہیں ہوگی، اور مذکورہ فلیٹ تمام ورثاء کے درمیان ان کے شرعی حصص کے مطابق تقسیم ہوگا۔
فتح القدیر للکمال ابن الہمام میں ہے:
"قال (ولا تجوز لوارثه) لقوله عليه الصلاة والسلام (إن الله تعالى أعطى كل ذي حق حقه، ألا لا وصية لوارث) ولأنه يتأذى البعض بإيثار البعض ففي تجويزه قطيعة الرحم. "
(کتاب الوصایا،ج،10،ص،423،ط:دار الفکر بیروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610100228
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن