میرے شوہر کی سگی خالہ بیوہ ہوگئی تھیں، ان کی کوئی اولاد نہیں تھی، اور والدین کا بھی ان سے پہلے انتقال ہوچکا تھا، انتقال کے وقت خالہ کے ورثاء میں ایک بھائی اور دو بہنیں حیات تھیں، انتقال کے وقت وہ میرے گھر پر تھیں، تو انتقال کے دن ہی میں نے سب رشتہ داروں کو جمع کیا جو وہاں آئے ہوئے تھے، اور خالہ کے متروکہ سامان کا تذکرہ کیا کہ اس کا کیا کِیا جائے؟ چنانچہ اسی مجلس میں سب نے اپنے اپنے حساب سے چیزیں بانٹ لیں، ان کی متروکہ اشیاء میں ایک نماز والی کرسی، نئے پرانے ملا کر تقریبا پندرہ جوڑے کپڑے، ایک سوٹ کیس کچھ آرٹیفیشل جیولری ایک بستر، دوتین چادریں، چپل، روزمرہ استعمال کی چیزیں جیسے تیل کنگھے، پاؤڈر، کریم، خالی بوتلیں، سویٹر، اسکارف وغیرہ۔
جب سب چیزیں عورتوں نے آپس میں بانٹ لیں تو مجھے تسلی ہوگئی، اب جب اس بات کو ایک سال کا عرصہ گزر گیا ہے تو مجھے یہ فکر لاحق ہوگئی ہے کہ یہ تقسیم شرعی اعتبار سے درست ہوئی ہے یا نہیں؛ کیونکہ بہنوں نے کچھ نہ کچھ لیا ہے، جبکہ بھائی نے کچھ بھی نہیں لیا، زیادہ چیزیں باقی لوگ لے گئے، اب یہ سوال کرنا ہے کیا میں نے یہ سب درست کیا یا نہیں؟ اور اگر درست نہیں کیا تو مجھے اب کیا کرنا چاہیے؟
بھابھی اور دونوں بہنیں وہاں موجود تھیں، لیکن تقسیم کے وقت انہوں نے نہ رضامندی کا اظہار کیا اور نہ ہی انکار کیا، اور اب بھی بہن بھائیوں کو کوئی اعتراض نہیں ہے، اور مرحومہ کا کل ترکہ زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار کا ہوگا؟
واضح رہے کہ وراثت ایسا حق ہے جو ساقط کرنے سے یا سارے حق سے دست بردار ہونے سے ختم نہیں ہوتا جب تک وارث اپنا حصہ وصول نہ کرلے، اور وصول کرنے کے بعد وہ سارا کسی کو ہبہ کردے، یا بعض حصہ لےلے اور بقیہ سے دست بردار ہوجائے تو یہ جائز ہے۔
صورتِ مسئولہ میں مرحومہ کے ورثاء میں ایک بھائی اور دو بہنیں ہیں، اور کل ترکہ (چاہے جتنا بھی ہو اس کے یااس کی مالیت) کے چار حصے کرکے دو حصے بھائی کے اور ایک ایک حصہ ہر ایک بہن کا حق ہے، جبکہ بہنوں نے خود کچھ حصہ لےلیا ہے،ا ور اپنی مرضی سے باقی چیزیں دیگر عورتوں میں تقسیم کردی ہیں، اور بھائی نے کچھ بھی نہیں لیا تو ایسی صورت میں اگرچہ بھائی کی طرف سے کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن شرعاً بہنوں کے ذمہ لازم ہے کہ کل ترکہ کے دو چوتھائی حصے یا ان کی قیمت بھائی کے حوالے کریں، یا کوئی اور چیز بھائی کو دے کر صلح کرلیں۔
باقی ترکہ کو شرعی اعتبار سے صحیح تقسیم کرنا آپ کی ذمہ داری نہیں تھی، بلکہ مرحومہ کے ورثاء کی ذمہ داری ہے، لیکن چونکہ آپ کے کہنے پر یہ معاملہ کیا گیا ہے، اور آپ کو اس کی فکر بھی لاحق ہے تو ان بہن بھائیوں کو یاددہانی کرواکر شرعی حکم کے مطابق عمل کروادیں تو آپ کےلیے باعث اجر ہوگا، پھر اگر وہ شرعی حکم معلوم ہونے کے بعد بھی اس کو اہمیت نہیں دیتے، یا اس پر عمل کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے تو آپ اس سے بری الذمہ ہیں، آپ کو کوئی گناہ نہیں ہوگا۔
غمز عيون البصائر (شرح الأشباه) میں ہے:
"ما يقبل الإسقاط من الحقوق وما لا يقبله، وبيان أن الساقط لا يعود:
1: لو قال الوارث: تركت حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك، والحق يبطل به حتى لو أن أحدا من الغانمين قال قبل القسمة: تركت حقي بطل حقه، وكذا لو قال المرتهن: تركت حقي في حبس الرهن بطل.....
قوله: لو قال الوارث: تركت حقي إلخ. اعلم أن الإعراض عن الملك أو حق الملك ضابطه أنه إن كان ملكا لازما لم يبطل بذلك كما لو مات عن ابنين فقال أحدهما: تركت نصيبي من الميراث لم يبطل لأنه لازم لا يترك بالترك بل إن كان عينا فلا بد من التمليك وإن كان دينا فلا بد من الإبراء، وإن لم يكن كذلك بل ثبت له حق التملك صح كإعراض الغانم عن الغنيمة قبل القسمة كذا في قواعد الزركشي من الشافعية ولا يخالفنا إلا في الدين، فإنه يجوز تمليكه ممن هو عليه."
(الفن الثالث الجمع والفرق، أحكام ما يقبل الإسقاط، 3/ 354، ط:دار الكتب العلمية بيروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144604100119
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن