ہم چھ بھائی اور دو بہنیں ہیں، ہمارے والدین کا انتقال ہوا ہے، والدین مرحومین کے ترکے میں ایک مکان اور ایک دکان ہے، ہم مکان اور دکان کو بیچ کر اس کی قیمت کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں، مکان کو بیچنے پر سب ورثاء راضی ہیں، ایک بھائی منع کر رہا ہے اور وہ بھائی خود بھی اس مکان کو نہیں لے رہا، اور دکان کو بیچنے پر بھی دو بھائیوں کے علاوہ سب راضی ہیں۔
دریافت طلب مسئلہ یہ ہے : کیا ان بھائیوں کا دکان اور مکان کو بیچنے سے منع کرنا شرعی اعتبار سے درست ہے؟
واضح رہے کہ کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کی املاک میں تمام ورثاء کا حق متعلق ہوجاتا ہے، اور ورثاء میں سے ہر ایک ان املاک میں سےاپنے اپنے شرعی حصوں کے مطالبہ کا حق رکھتا ہے، لہذااگر ورثاء میں سے کوئی وارث میراث کی تقسیم کا مطالبہ کرےتو ایسی صورت میں دیگر ورثاء پر فی الفور میراث کو تقسیم کرنا لازم ہوجاتاہے،نیز میراث کی تقسیم میں بہتر اور مناسب یہی ہے کہ جتنا جلد ہوسکے میراث تقسیم کردی جائے، چاہے تقسیم کرنے کے لیے جائیداد کو بیچنا پڑے،کیوں کہ بلا وجہ میراث کی تقسیم میں تاخیر کرنے سے بہت سی اُلجھنیں پیدا ہوجاتی ہیں۔
صورتِ مسئولہ میں سائل کے والدین مرحومَین کی جائیداد کو تقسیم کرنے کے لیے ان کے ورثاء مرحومین کے ترکے میں موجود دکان اور مکان کو بیچنا چاہتے ہیں تو دیگر ورثاء کا بلاوجہ اُسے فروخت کرنے سے منع کرنا شرعاً درست نہیں، لہذا سائل اور ان کے تمام بھائیوں کو چاہیے کہ فی الفور اپنے والدین کی متروکہ جائیداد کو فروخت کر دیں یا ورثاء میں سے کوئی وارث باہمی رضامندی سے جائیداد کو موجودہ قیمت پرخرید کر ہر وارث کو اس کا شرعی حصہ دےدے۔باقی اگر وہ خود خریدنا چاہے تو وہ زیادہ حقدار ہیں، جبکہ وہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق قیمت ادا کرے۔
صورتِ مسئولہ میں مرحومین کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحومین کے حقوقِ متقدّمہ یعنی تجہیز وتکفین کا خرچہ نکا لنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے کل ترکہ سے ادا کرنے کے بعد، اگر مرحومین نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی ترکہ سے نافذ کرنے کے بعد، بقیہ ترکہ منقولہ، غیر منقولہ کو 14 حصوں میں تقسیم کرکے مرحومین کے ہر ایک بیٹے کو دو حصے اور ہر ایک بیٹی کو ایک حصہ ملے گا۔
صورتِ تقسیم درج ذیل ہے:
میت: 14
بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی |
2 | 2 | 2 | 2 | 2 | 2 | 1 | 1 |
فیصد کے اعتبار سے ہر ایک بیٹے کو14.28اورہرایک بیٹی کو7.14روپے ملیں گے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإذا طلب أحد الشريكين القسمة وأبى الآخر فأمر القاضي قاسمه ليقسم بينهما."
(كتاب القسمة، ج:5، ص:231، ط:الرشیدیة)
درر الحكام في شرح مجلة الاحكام میں ہے :
"إذا طلب أحد الشريكين القسمة وامتنع الآخر عنها فيقسمه القاضي جبرا أي حكما إذا كان المال المشترك قابلا للقسمة؛ لأن القسمة هي لتكميل المنفعة والتقسيم في المال القابل للقسمة أمر لازم."
(باب في بيان القسمة ، المادة 1130، ج:3، ص:128، ط:دار الجيل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511102094
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن