بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

وارث کے حق میں وصیت اور اس وصیت کے اثبات کے لئے فروع واصول کی گواہی کا حکم


سوال

ہم پانچ بہن بھائی تھے(چار بھائی اور ایک بہن)دو بھائی اور بہن کا انتقال ہوچکا ہے،فوت شدہ بھائیوں میں سے ایک غیر شادی شدہ جبکہ دوسرا شادی شدہ تھا،اس کے چار بیٹے اور آٹھ بیٹیاں ہیں،اب تیسرے بھائی کا بھی انتقال ہوچکا ہے،اس کے ورثاء میں ایک بیوہ،ایک بیٹی اور ایک بھائی(سائل)اور متوفی کی زندگی میں فوت ہونے والے بھائی کے چار بیٹے اور آٹھ بیٹیاں ہیں،متوفی بھائی نے اپنے پیچھے منقولہ وغیرمنقولہ جائیدادیں چھوڑیں ہیں،متوفی نے زندگی میں ایک بھتیجے کو بتایا تھا کہ میرے مرنے کے بعد جائیداد میں سے ایک مکان جو ایبٹ آباد میں واقع ہے،ایک گاڑی اور ایک موٹرسائکل میری بیٹی کا ہوگا،جبکہ دیگر کل ترکے کے بارے میں کچھ نہیں کہا تھا،نقد رقم جو متوفی نے اپنے چچازاد بھائی کے ساتھ کاروبار میں لگائی تھی اس کے بارے میں اسی چچازاد بھائی کو کہا تھا کہ میری وفات کے بعد اس رقم سے میری بیٹی اور بیوی کا خرچہ چلتا رہے گا، متوفی نے بیٹی کے لئے جو وصیت کی تھی وہ سائل نے زبانی طور پر اپنے حصے کے حد تک چھوڑ دی تھی، باقی ترکہ کے بارے میں سائل نے یہ گزارش کی تھی کہ جتنا حصہ میرا بنتا ہے وہ مجھے دے دیا جاۓ،جس پر متوفی کی بیوہ اور بیٹی کی طرف سے ذمہ دار(جوکہ متوفی کا بھی حقیقی بھتیجا ہے اور سائل کا بھی)نے سائل کو تین افراد کی موجودگی میں کہا کہ چچا جی میں آپ کے اس فیصلہ پر راضی ہوں،لیکن ابھی تک کوئی معاملہ حل نہیں ہوا، اس لئے اس فتوے کی ضرورت پڑی ہے،اب درج ذیل سوالوں کے بارے میں بتادیجیئے:

1:متوفی نے بیٹی کے بارے میں جو وصیت کی ہے اس کا کیا حکم ہے؟

2:کیا جن اصولی اور فروعی ورثاء کے حصص کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺمیں بیان کردیئے گۓ ہیں ان کے بارے میں وصیت کرنا جائز ہے؟

3:کیا وصیت کو ثابت کرنے کے لئے اصول اور فروع میں سے کوئی بھی شہادت دے سکتا ہے؟

4:کیا متوفی نے وصیت کی ہے اس پر شرعا عمل کرنا لازم ہے؟

5:کیا ترکہ کی تقسیم سے پہلےکوئی وارث بلا عوض کسی دوسرے وارث یا ورثاء کے حق میں  اپنے شرعی حصہ سے دستبردار ہوسکتا ہے؟

6:کیا ترکہ کی تقسیم سے پہلے سائل نے جو مکان،گاڑی اور موٹرسائکل میں سے اپنے شرعی حصہ کی حد تک اپنا حق متوفی کی بیٹی اور بیوہ کو چھوڑا ہے وہ شریعت کے مطابق درست ہے؟

7:کیا بھتیجے اور بھتیجیاں حقیقی بھائی کے موجودگی میں وارث بن سکتے ہیں؟

8:متوفی کے ورثاء میں ایک بیوہ، ایک بیٹی،ایک بھائی اور متوفی کی زندگی میں وفات شدہ بھائی کے چار بیٹے اور آٹھ بیٹیاں ہیں، ان نکے درمیان ترکہ کیسے  تقسیم ہوگا؟

جواب

2/1:وارث کے حق میں وصیت کرنا شرعاً معتبر نہیں ہے،البتہ اگر تمام ورثاء  بالغ ہوں اور اپنی رضامندی سے اس وصیت کو نافذ کردیں تو جائز ہوجاۓ گی،لہذامرحوم نے بیٹی کی حق میں جو وصیت کی ہے وہ دیگر تمام ورثاء کی اجازت پر موقوف ہے،اگر وہ اجازت دے دیں تو درست ہے، ورنہ نہیں۔

3:وصیت کو ثابت کرنے کے لئے دو شرعی گواہوں کی گواہی ضروری ہوتی ہے،البتہ اگر میت کے اصول وفروع وصیت کی گواہی دیں تو اس میں اگر ان پر تہمت آتی ہو کہ مثلاًان کو کچھ فائدہ پہنچ رہا ہوتو پھر گواہی غیرمعتبرہوگی،اور اگر ان کی گواہی تہمت سےخالی ہو تو تب معتبر ہوگی۔

4:اس  کا جواب 2/1 کے ذیل میں آچکا ہے۔

5:ترکہ کی تقسیم سے پہلے کسی وارث کی اپنے حصے سے بلاعوض دستبرداری شرعاً غیر معتبر ہے،لہذا اگر کوئی تقسیم سے پہلے دستبردار ہوجاۓ،اور تقسیم کےوقت دوبارہ اپنے حق کا مطالبہ کرلے تو جائز ہے۔

6:جیسے پہلے لکھا جاچکاہے کہ وارث کے حق میں وصیت اس وقت معتبر ہوتی ہے، جب ورثاء اجازت دے دیں، تو جب آپ مرحوم کے وارث ہیں،اور آپ نے اجازت دے دی تو یہ شرعاً درست ہے اور آپ کے حصے کی حد تک نافذ ہوگی اور اگر دیگر ورثاء نے بھی اجازت دے دی تو ان کے حصوں سے بھی نافذ کیا جاۓ گا۔

7:بھائی کی موجودگی میں بھتیجا وارث نہیں بنتا۔

8:صورت مسئولہ میں میت کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیزوتکفین کا خرچہ ادا کرنے کے بعد ،اگر میت نے کوئی جائز وصیت کی ہو اس کو ایک تہائی ترکے میں سے ادا کرنے کےبعد،اگر میت پر کوئی قرض ہو اس کو ادا کرنے کے بعد باقی منقولہ وغیرمنقولہ ترکے کو 8 حصوں پر تقسیم کرکے1حصہ بیوہ کو،4حصے بیٹی کو اور 3حصے بھائی کو ملیں گے،بھتیجوں اور بھتیجیوں کو کچھ نہیں ملے گا،

تقسیم کی صورت یہ ہوگی:

میت:8

بیوہبیٹیبھائی4بھتیجےاور8بھتیجیاں
143محروم

فیصد کے اعتبارسے 12.5فیصد زوجہ کو،50فیصد بیٹی کواور 37.5فیصد بھائی کو ملے گا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) أن لا يكون وارث الموصي وقت موت الموصي، فإن كان لا تصح الوصية لما روي عن أبي قلابة رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال «إن الله تبارك وتعالى أعطى كل ذي حق حقه، فلا وصية لوارث."

(کتاب الوصایا،فصل فی شرائط رکن الوصیۃ،ج:7/ ص:337،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتجوز بالثلث للأجنبي) عند عدم المانع (وإن لم يجز الوارث ذلك لا الزيادة عليه إلا أن تجيز ورثته بعد موته).(إلا بإجازة ورثته)؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة"

 (کتاب الوصایا،ج:6/ص:656،ط:سعید)

الدرالمختار میں ہے:

"(والفرع لاصله) وإن علا إلا إذا شهد الجد لابن ابنه على أبيه.أشباه.قال: وجاز على أصله إلا إذا شهد على أبيه لامه ولو بطلاق ضرتها والام في نكاحه، وفيها بعد ثمان ورقات: لا تقبل شهادة الانسان لنفسه إلا في مسألة القاتل إذا شهدبعفو ولي المقتول، فراجعها (وبالعكس) للتهمة."

 (کتاب الشھادات،باب القبول وعدمہ،ص488،ط:دار الکتب العلمیۃ-بیروت)

العقودالدریۃ میں ہے:

"(سئل) في أحد الورثة إذا أشهد عليه قبل قسمة التركة المشتملة على أعيان معلومة أنه ترك حقه من الإرث وأسقطه وأبرأ ذمة بقية الورثة منها ويريد الآن مطالبة حقه من الإرث فهل له ذلك؟

(الجواب) : الإرث جبري لا يسقط بالإسقاط وقد أفتى به العلامة الرملي كما هو محرر في فتاواه من الإقرار نقلا عن الفصولين وغيره فراجعه إن شئت."

(کتاب الدعوی،ج:2/ص: 26،ط:دارالمعرفۃ)

سراجی میں ہے :

"یرجحون بقرب الدرجۃ،اعنی اولاھم بالمیراث جزءالمیت،ای البنون ثم بنوھم وان سفلوا.ثم اصلہ،ای الاب،ثم الجد ای اب الاب وان علا،ثم جزء ابیہ،ای الاخوۃ،ثم بنوھم وان سفلوا،ثم جزء جدہ ،ای الاعمام، ثم بنوھم وان سفلوا."

(باب العصبات،ص:54،ط:البشری)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610100453

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں