ہماری بہن کاانتقال 2024ءمیں ہوا،ان کی کوئی اولادنہیں تھی،وہ مطب کاکام کرتی تھی،جوکچھ ترکہ ہےوہ اس کی کل کمائی کاہے،ان کاگھردکان سب ان ہی کاہے،اس میں ان کےشوہرکی کمائی کاکوئی حصہ نہیں ہے،اب انہوں نےوفات کےبعداپنےگھرکومدرسہ بنانےکی وصیت کی تاکہ موت کےبعدان کےلیےذخیرہ آخرت ہو۔
اب پوچھنایہ ہےکہ مذکورہ وصیت کی کیاحیثیت ہے؟ایسی وصیت شرعادرست ہےیانہیں۔
وضاحت : وصیت ویڈیوکی شکل میں ہے،جس میں خاتون نےکہاہےکہ میرےشوہرکارویہ میرےساتھ شروع سےاچھانہیں رہاہے،اب میں اس سےخلع لیناچاہتی ہوں،وہ میرےقتل کی کوشش میں ہے،اگرمجھےکچھ ہوتاہے،تواس کاذمہ دارمیراشوہرہوگا،اپنےگھرکےبارےمیں وصیت کی ہےکہ ’’میرےمرنےکےبعدیہ کسی مدرسہ کودیاجائے‘‘،تاکہ وہ ان کےلیےذخیرہ آخرت ہو،نیزکچھ وصیت صارم برنی ٹرسٹ کےلیےکی ہے۔
تنقیح:مرحومہ کی موت کس سبب سےواقع ہوئی ہے،کہیں شوہرپراس کےقتل کاالزام تونہیں ہے؟
جوابِ تنقیح:ڈاکٹروں اورپولیس کی رپوٹ کےمطابق مرحومہ کاانتقال طبعی موت سےہواہےاورمرحومہ نےجوکہاہےکہ مجھےکچھ ہواتواس کاذمہ دارشوہرہوگا،یہ اس لیےکہاتھا،کہ ایک مرتبہ اس کےشوہرنےمارپیٹ کےدوران اس کاگلہ دبایاتھا۔
واضح رہےکہ انسان کےانتقال کےوقت اس کےکل مال کےساتھ تمام ورثاء کاحق ثابت ہوجاتاہے،اس کےبعدکسی کومحروم کرنےکاحق نہیں ہوتا،اس وقت اگر خود مرنےوالابھی ایسی وصیت کرےکہ اس کےمال میں سےکسی وارث کومحروم کیاجائے،تووہ شرعاایسی وصیت نافذنہیں ہوگی اوروصیت کرنےوالاسخت گناہ گارہوگا، یہاں تک کہ حدیثِ پاک میں آتاہے،’’جوکوئی شخص اپنےوارث کومیراث سےمحروم کردے،اللہ اس کوجنت میں اس کےحصےسےمحروم کردےگا‘‘۔
لہذا صورت میں مسئولہ میں سائل کی بہن نےمذکورہ جووصیت کی ہے،اگرحقوق متقدمہ اداکرنےکےبعدیہ وصیت اس کےکل مال کےایک تہائی حصےکےبقدرہو،تواس صورت میں مذکورہ وصیت شرعانافذکردی جائے گی ، لیکن اگروہ کل مال کاتہائی نہیں بن رہاتوپھراس گھریادیگرچیزوں میں سے کل ترکہ کےصرف ایک تہائی کےبقدر وصیت نافذہوگی باقی مال اس کےشرعی وارثوں کے درمیان تقسیم کیاجائےگا،ہاں اگرمرحومہ کےتمام شرعی عاقل ،بالغ ورثاءاس پورےگھرکی وصیت پرعمل کرنےپر راضی ہوں توپوراگھرمدرسہ بنایاجاسکتاہے۔
تفسیرابن کثیر:
"فمن خاف من موص جنفا أو إثما فأصلح بينهم فلا إثم عليه إن الله غفور رحيم"(البقرة)
"اشتملت هذه الآية الكريمة على الأمر بالوصية للوالدين والأقربين. وقد كان ذلك واجبا -على أصح القولين -قبل نزول آية المواريث، فلما نزلت آية الفرائض نسخت هذه، وصارت المواريث المقدرة فريضة من الله، يأخذها أهلوها حتما من غير وصية ولا تحمل منة الموصي، ولهذا جاء الحديث في السنن وغيرها عن عمرو بن خارجة قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب وهو يقول: "إن الله قد أعطى كل ذي حق حقه، فلا وصية لوارث."
(سورة البقرة،آية:182،ج:1،ص:492،ط:دار طيبة للنشر والتوزيع)
سنن ابن ماجہ میں ہے:
" عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من فر من ميراث وارثه، قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة."
(باب الحيف في الوصية، رقم الحديث: 2703، ج:2، ص:902، ط: دار إحياء الكتب العربية)
درالمختارمع الرد:
"هي تمليك مضاف إلى ما بعد الموت) عينا كان أو دينا۔۔۔(وشرائطها كون الموصي أهلا للتمليك۔۔۔(قوله وكونه غير وارث) أي إن كان ثمة وارث آخر وإلا تصح كما لو أوصى أحد الزوجين للآخر ولا وارث غيره."
(كتاب الوصایا،ج:6، ص:648،ط:دارالفکر،بیروت)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولا تجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية."
(کتاب الوصایا، الباب الأول في تفسير الوصية وشرط جوازها وحكمها، ج:6، ص:90، ط:دار الفکر)
الدرالمختارمیں ہے:
"(أوصى بجعل داره مسجدا ولم تخرج من الثلث، وأجازوا تجعل مسجدا) لزوال المانع بإجازتهم، وإن لم يجيزوا يجعل ثلثها مسجدا رعاية لجانب الوارث والوصية."
(كتاب الوصايا، باب الوصية بالخدمة والسكنى والثمرة، ص:744، ط:دار الكتب العلمية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144603100248
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن