بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

وصیت کے متعلق چند سوالات


سوال

ہم پانچ بہن بھائی ہیں ،(3بھائی اور 2 بہنیں )،والد نے وراثت میں دو گھر چھوڑے ہیں ،اس کے علاوہ کچھ رقم کی وصولی ان کی وفات کے موقع پر کا روباری معاملات میں باقی تھی،جو ان کی وفات کے بعد بیٹوں نے وصول کی ،ایک گھر خالی پڑاہےاور بکنے کےلیے لگایا ہوا ہے ،دوسرے گھر میں والد صاحب نے خود اپنی دو بیوہ بہنوں اور ان کی بیٹیوں کو پناہ دے رکھی تھی اور والد صاحب نے اپنی زندگی میں ہی اس گھر کے نیچے حصے  میں دکانوں کو کرایہ پر لگا کر اس کی رقم اپنی بہنوں کی کفالت کے لیے متعین کردی تھی ،ا ب جب کہ والدصاحب کا انتقال ہوگیا تو دو سال انتظار کے بعد ان کی دونوں بیٹیوں کی طرف سے مطالبہ ہے کہ والد صاحب کی ساری وراثت کی تفصیل بتائی جائے ، بھائیوں اور والدہ کا کہنا ہے کہ کہ جو گھر بکنے پر لگا یا ہے جب بھی بکے گا ،تو حصہ مل جائے گا ، مگر دوسرا گھر کیوں کہ اس میں والدصاحب نے خود اپنی بہنوں کو ٹھہرایا تھا،نہ وہ بکے گا اور نہ اس کے حصے ہوں گے، اور ا س کے نیچے کی دکانوں کا  کرایہ جو پھوپھیاں لے رہی ہیں، ا ن کو ہی ملے گا ،بھائیوں کے  مطابق والد بسترمرگ پر یہ  وصیت کر کے  گئے ہیں کہ(وصیت کے الفاظ یہ ہیں : جب تک میری بہنیں زندہ ہوں، وہ اسی گھر میں رہیں گی اور اس گھر کے نیچے جو دکانیں ہیں ،ان کا جو کرایہ آتا ہے  وہ بھی ان کو ملے گا )  اور اس وصیت کے گواہ بھائی ،والدہ اور بھابھی ہیں،مگر وصیت کی نہ کوئی  کاغذی کاروائی ہوئی ہے اور نہ اس کے بارے میں والد صاحب نے بیٹیوں کو آگاہ کیاتھا ، مزید بھائیوں کا یہ دعوی ہے  کہ والد صاحب نے پراپرٹی اپنی  بیٹیوں اور بیوی کے نام سے خریدی اور  کاغذات بھی  ا ن کے  نا م پر ہیں ،یہ والد صاحب نے پراپرٹی ٹیکس سے  بچنے کے لیے یہ اقدام کیا تھا ،تو کیا قانونی وشرعی طور پر ہم دونوں بہنیں وراثت کا مطالبہ کر ہی نہیں سکتیں،مزید یہ کہ ابھی تو گھر  وصیت کا نام لے کر نہیں بکنے دیا جارہا ہے ،مگر استفسار پر یہ بتایا گیا ہے کہ جب والد کی بہنیں حیات نہ رہیں گی تو گھر بھائیوں کے  بچوں میں وراثت کے حساب سے تقسیم کر دیاجائے گا ،میرا سوال یہ ہے کہ:

1۔کیا ایسی وصیت جو سرکاری طور پر بتائی بھی نہیں گئی ہے اور نہ اس پر کوئی کاغذی کار روائی ہوئی ہو،نہ شرعی گواہ مقرر ہوئے ہوں ،اور یہ1/3حصے وراثت سے بھی زیادہ حصے پر زیادہ لگا نے کا دعوی کیا جارہاہے،کیا ایسی وصیت کی کوئی شرعی حیثیت ہے ؟

2۔کیاشرعی وارث وصیت کا گواہ مقرر ہوسکتا ہے ؟

3۔ کیا اس وصیت کا بیوہ بہنوں کی وفات کے بعد وراثت میں منتقل کر کے تقسیم کرلینا جائز ہے ؟

4۔کاروبار سے آنے والی رقم کیا بہنوں کی اجاز ت کے بغیر والد کے نماز روزوں کے کفارے کے طور پر دی جا سکتی ہے ؟

5۔کیا والد کے گھر میں سے ملنے والےکرایے میں بیٹیاں اپنا حق مانگ سکتی ہیں ؟

6۔گھر بکنے کی مدت کا کوئی تعین نہیں کیا جارہا ہے اور بہنوں کو مطالبہ کرنے پر یہ کہہ کر چپ کروادینا کہ جب بکے گا تو تم دونوں کو حصہ مل جائے گا،جب کہ بہنوں کا کہنا ہے کہ کہ موجودہ مارکیٹ ریٹ لگو اکر ہمیں اپنا حصہ دے دیا جائے اور ہم سے مزید انتظار نہ کروایا جائے۔

شریعت کی روشنی میں جوا ب دے کر مشکور فرمائیں !

جواب

1۔واضح رہے کہ   اسلام میں صرف  زبانی وصیت  بھی معتبر سمجھی جاتی ہے،سرکاری طور پر  رجسٹرڈ کرانا یا اس کو تحریر کرا نا ،اسی طرح اس پر گواہ مقرر کر ناشرعاًلازمی ضروری نہیں ہے، صورتِ مسئولہ میں وصیت کر نے  والے  کی وصیت کے بارے میں اگرچہ ورثا ء کا اختلاف ہے ،لیکن وصیت کادعوی کرنے والوں کے پاس اپنے دعوی پر گواہ(مرحوم کے تینوں بیٹے ،بیوہ اور بہو) موجود ہے  ،اس لیے   یہ زبانی وصیت   بھی معتبر ہے۔

وصیت کر نے والے کی وصیت کو  ایک تہائی (1/3)  میں نافذ کر نا اور اس پر  عمل کرنا  ورثاء کے  ذمہ لازمی وضروری  ہوتا ہے،ایک تہائی سے زائد میں وصیت کو نافذ کرنا ،اس پر عمل کرنا   ورثاء کے  ذمہ لازمی نہیں ہوتا  ہے ،  اگر تمام ورثاء عاقل بالغ ہوں ،وہ اپنی خوشی سے ایک تہائی سے زیادہ میں  مرحوم کی وصیت کے مطابق  عمل کرنا چاہیں،تو  ورثاءاس پر عمل کر سکتے ہیں۔

صورتِ مسئولہ میں مرحوم نے  بہنوں کے لیےدو چیزوں کی وصیت کی ہے ،پہلی وصیت" سکنی"(رہائش)کی ہے  کہ میری بہنیں  مرتے دم تک اس گھر میں رہیں گی ،اور دوسری وصیت یہ کہ اس گھر کے نیچےجو دکانیں ہیں، ان سے جو کرایہ آئےگا، وہ میری بہنوں کو ملے گا،اسی طرح  اگر ان دونوں  وصیتوں کے ساتھ ساتھ قضاء نمازوں اور روزوں کے فدیہ دینے کی  وصیت بھی کی ہے ،تو یہ متعدد وصیتیں ہیں،اور جب وصیتیں متعدد   ہوں ،اور وہ حق العبد اور حق اللہ دونوں کے متعلق ہوں یا صرف حق العبد کے متعلق ہوں،اورورثاء ایک تہائی سے زائد میں وصیت نافذ ہونے  کی اجازت نہ دیتے  ہوں ،تو  اس وقت ایک تہائی ترکہ (ثلث مال)  کے  اتنے حصہ بنائے جائیں گے جتنی وصیت کی تعداد ہو،پھر ہر ایک حصہ سے وصیت کو نافذ کیاجائے گا،پس  صورتِ مسئولہ میں قضاء نمازاور قضاء روزوں کے فدیہ دینے کی  وصیت  کاتعلق  حق اللہ سے  ہے اور سکنی اور کرایہ کی وصیت کاتعلق  حق العبد (بندوں کےحق)  سےہے ،وصیت چوں کہ ایک تہائی تک نافذ ہوتی ہے ،اس سے زائد ورثاء  کی اجازت پر موقوف رہتی ہے،لہذا اجاز ت نہ ہونے کی صورت میں کل ترکہ کے ایک تہائی کو تین حصوں میں   تقسیم کیا جائے گا،تہائی ترکہ کے ایک حصہ (جو کل ترکہ کا نواں حصہ بنتا ہے)میں قضاء نمازوں اور روزوں کے  فدیہ  دینے کی وصیت کو نافذ کیاجائے گا، دوسرے  حصہ  میں دکانوں کے کرایہ دینے کی وصیت کو تہائی ترکہ کے اورتیسرے حصہ میں سکنی  کی وصیت کو نافذ کیاجائے گا،یہ تفصیل اس صورت میں ہےجب  مرحوم نے سکنٰی اور کرایہ  کی وصیت کے ساتھ فدیہ دینے کی وصیت بھی کی ہواور ورثاء ایک تہائی ترکہ سے زائد کی اجازت نہ  دیتے ہوں ،اگر ایک تہائی سے زائد کی اجازت  دیتے ہیں  تو جتنےکی اجازت دیں گے اس میں وصیت کو نافذ کیا جائے گا،اور اگر ورثاء میں سے بعض  ایک تہائی سے زائد کی اجازت دیتے ہیں  اور بعض اجازت نہیں دیتے ہیں،تو جو اجازت دیتے ہیں ،ایک تہائی سے زائد وصیت کو صرف اسی کے حصہ میں نافذ  کیا جائے گا،اور جو اجازت نہیں دیتے ہیں ان کو اپنا  شرعی حصہ دیا جائے گا۔

اور   اگر مرحوم نے قضاء نمازوں اور  روزوں کے  فدیہ دینے کی وصیت نہیں کی ہے،بلکہ صرف دو صیتیں (سکنی اور کرایہ ) کی ہےتوپھراس صورت میں بھی کل ترکہ کے  ایک تہائی کو دو حصوں میں تقسیم کیاجائے گا،اس میں سے ایک حصہ (جوکل ترکہ کا چھٹا حصہ بنتاہے) سے کرایہ والی وصیت کو نافذ کیا جائے گا،یعنی کل ترکہ کا چھٹا حصہ کرایہ میں سے بہنوں کو دینا ورثاء کے ذمہ لازم ہوگا،اس سےزائد کرایہ دینا یا مرحوم کی بہنوں کا وصول کرنادیگرورثاء کی اجازت پر موقوف ہوگا ،اگر اجازت دیں گے تو اس سے زائد کرایہ بھی ملے گا او ر اگر اجازت نہیں دیں گے تو یہ کرایہ مرحوم کے ورثاء پر اپنے حصص کے اعتبار سےتقسیم کیا جائے  گا۔

اورتہائی ترکہ کا دوسراحصہ (جوکل ترکہ کا چھٹا حصہ بنتاہے ) سے سکنٰی (رہائش)  والی وصیت کو نافذ کیا جائے گا،اورجب وصیت سکنی (رہائش) کی  ہو،تو اس کے بارے میں  شرعی حکم یہ  ہے کہ موصیٰ لہ (جس کے لیے وصیت کی ہے )یعنی  بہنوں کو  وہ گھر بطورِعاریت کے دیاجائے گا ،اور یہ سمجھا جائے گا  کہ گویا وصيت كرنے والے نے اس گھر کے عین کی وصیت کی ہے،صورت مسئولہ میں اگر ورثاءایک تہائی سے زائد وصیت کی  اجازت نہیں دیتے ہوں تو پھر  موصی  لہ ( مرحوم کےبہنوں )کو  مرتے دم تک اس گھر میں  رہائش کے لیے   صرف اتناحصہ  بطورِ وصیت کے ملے گا ،جو کل ترکہ کا چھٹا حصہ بن رہاہو،مرحوم کےبہنوں کا اس سےزائدحصہ  میں  رہائش اختیار کرنادیگرورثاء کی اجازت پر موقوف ہوگا ،اگر اجازت دیں گے تو اس سے زائد گھر  میں بھی رہائش اختیار کریں گےوگرنہ   گھر   کابقیہ حصہ مرحوم کے ورثاء میں مشترک ہوگا ۔

نیزمرحوم کی بہنوں کوجس وقت  گھر کا حصہ  رہنے  کےلیے دیا جائے گا،تو مرحوم کےورثاء کےلیےاس وقت اس گھر کو بیچنا جائز نہیں ہوگا،اور مرحو م کی بہنوں کے انتقال کے بعد  گھرکاوصیت والا حصہ اور دکانوں کا کرایہ مرحوم کے  تمام ورثاء کےدرمیان اپنے حصص کے اعتبار سے تقسیم کیا جائے گا۔

2۔شرعی وارث وصیت کا گواہ مقرر ہوسکتا ہے ۔

3۔مرحوم والد نے اپنی بہنوں کے  لیےاس گھر کے کرایہ لینے کی وصیت کی ہے ،ان کو گھر کا مالک نہیں بنایا ہے  ،تو یہ گھر چوں کہ مر حو م والد کی ملکیت ہے  ،پھوپھیوں  کے  انتقال کے بعد یہ  گھر مرحوم والد کے جمیع ورثاء  بیوہ ،بیٹوں اور بیٹیوں کے مابین اپنے حصص کے  اعتبار سے بطور ِوراثت کے   تقسیم کیا جا  ئے گا۔

4۔اگر مرحوم والد نے قضاء نماز ،روزوں کے فدیہ دینے  کی وصیت کی ہے  تو مرحوم کے اس وصیت کو  کل ترکہ کے نویں حصہ تک نافذ کرنا ہر ایک وارث پر لازم ہے ،لہذا  کاروبار سے آنے والی رقم کو بہنوں کی اجاز ت کے بغیر والد کے نماز، روزوں کے کفارے کے طور پر دی جا سکتی ہے،اور اگر مرحوم نے یہ  وصیت نہیں کی ہے یا کی ہےلیکن وہ  کل ترکہ کےنویں (9ویں )حصہ سے زائد بن رہی ہے تو ایسی صورت میں بھائیوں کا کاروبار سے آنے والی رقم کوقضاء نماز ،روزوں کے فدیہ میں بہنوں کی اجازت کے  بغیر دینا درست  نہیں ہے، اگر بھائی  فدیہ میں کا روبار کی رقم دیں گے ،تو یہ ان کی طرف سے تبرع ہوگا، بہنوں کو اپنا شرعی حصہ دینا  لازمی ہوگا۔

بیٹیاں مرحوم والد کے گھر کے  کرایہ میں اپنے حصے کے بقدر کرایہ  کی رقم کا مطالبہ کرسکتی ہیں ،کیوں کہ مرحوم والد کےمتروکہ گھر  میں  بیوہ اورتین بیٹوں کے  ساتھ  دو بیٹیوں کا بھی حصہ ہے ۔

6۔مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کا خرچہ نکالنے  کے بعد  ،قرضہ ادا کرنے کے بعد  اور جائز وصیت کوایک تہائی میں نافذکر نے کے بعد ورثاء  کے ذمہ لازم ہوتا ہے  کہ مرحوم کے ترکہ کو ورثاء میں تقسیم کرے ،خصوصاً جب کوئی وارث تقسیم کا مطالبہ کرے  ،صورتِ مسئولہ میں جب  مرحوم کی بیٹیاں تقسیم وراثت کا مطالبہ کرتی ہےاور اپنا حق مانگتی ہے  تو ان کے بھائیوں  پر لازم ہے   کہ مذکورہ  گھر کو تقسیم کرکے   ان کو ان کا حصہ دیں یا بیچ کر ان کو ان کے  حصے کے بقدر رقم دیدیں۔یا بھائی ان سے ان کا حصہ خرید لیں۔

مرحوم والد کے ترکہ کی شرعی  تقسیم سے پہلے مرحوم کے  حقوقِ متقدمہ یعنی کفن دفن کا خرچہ نکالنے کے بعد  ،اگر مرحوم پر کوئی قرضہ ہے تو اس کو ادا کرنے کےبعد اور مرحوم کی  جائز وصیت  کوایک تہائی ترکہ میں نافذ کرنے کے بعدباقی کل ترکہ کو64حصوں میں تقسیم کرکے 8حصے مرحوم کی بیوہ کو،14 حصےمرحوم کے  ہر ایک بیٹے   کو،اور 7حصےمرحوم کی ہر ایک بیٹی  کو   ملیں گے ۔

صورتِ تقسیم یہ ہوگی :

مرحوم والد :64/8

بیوہ بیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹی
17
814141477

یعنی فی صد کے اعتبار سے  بیوہ کو12.5  فی صد ،مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو21.875 فی صد اور مرحوم کی ہرایک بیٹی کو10.9375 فی صد ملے گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما ركنها فقوله أوصيت بكذا لفلان وأوصيت إلى فلان، كذا في محيط السرخسي..."

ولا تجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية.

ويعتبر كونه وارثا أو غير وارث وقت الموت لا وقت الوصية حتى لو أوصى لأخيه وهو وارث ثم ولدله ابن صحت الوصية للأخ، ولو أوصى لأخيه وله ابن ثم مات الابن قبل موت الموصي بطلت الوصية للأخ، كذا في التبيين."

(كتاب الوصايا ، الباب الأول في تفسير الوصية وشرط جوازها وحكمها ، ج :6 ، ص : 90  ، ط : دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے :

"(صحت الوصية بخدمة عبده وسكنى داره مدة معلومة وأبدا) ويكون محبوسا على ملك الميت في حق المنفعة.....وبغلتهما، فإن خرجت الرقبة من الثلث سلمت إليه) أي إلى الموصى له (لها) أي لأجل الوصيةوإلا) تخرج من الثلث (تقسم الدار أثلاثا) أي في مسألة الوصية بالسكنى، أما الوصية بالغلة فلا تقسم على الظاهر (وتهايآ العبد فيخدمهم أثلاثا) هذا إذا لم يكن له مال غير العبد والدار وإلا فخدمة العبد وقسمة الدار بقدر ثلث جميع المال كما أفاده صدر الشريعة. (وليس للورثة بيع ما في أيديهم من ثلثها) على الظاهر لثبوت حقه في سكنى كلها بظهور مال آخر أو بخراب ما في يده فحينئذ يزاحمهم في باقيها والبيع ينافيه فمنعوا عنه، وعن أبي يوسف لهم ذلك."

"قوله فإن خرجت الرقبة من الثلث) أي رقبة العبد والدار في الوصية بالخدمة والسكنى والغلة، وقيد بالرقبة لما في الكفاية أنه ينظر إلى الأعيان التي أوصى فيها، فإن كان رقابها مقدار الثلث جاز ولا تعتبر قيمة الخدمة والثمرة والغلة والسكنى لأن المقصود من الأعيان منافعها، فإذا صارت المنافع مستحقة وبقيت العين على ملك الوارث صارت بمنزلة العين التي لا منفعة لها فلذا تعتبر قيمة الرقبة كأن الوصية وقعت بها .أقول: ولعل هذا هو المراد من قول الأشباه: إن التبرع بالمنافع نافذ من جميع المال.تأمل (قوله تقسم الدار أثلاثا) زاد في الغرر أو مهايأة أي من حيث الزمان، والأول أعدل لإمكان القسمة بالأجزاء للتسوية بينهما زمانا وذاتا، وفي المهايأة تقديم أحدهما زمانا."

"قوله بقدر ثلث جميع المال) مثاله إذا كان العبد نصف التركة يخدم الموصى له يومين والورثة يوما لأن ثلثي العبد ثلث التركة فصار الموصى به ثلثي العبد وثلثه للورثة فيقسم كما ذكرناه، وعلى هذا الاعتبار تخرج بقية مسائله اختيار."

 (‌‌باب الوصية بالخدمة والسكنى والثمرة ، ج : 6 ، ص : 692 ، ط : دار الفکر)

فتح باب العنایہ میں ہے:

"وصحت) الوصية (بخدمة عبده، وسكنى داره مدة معينة) كسنة (وأبدا) لأن المنافع يصح تمليكها في حالة الحياة ببدل وغيره، فكذا في حالة الممات كما في الأعيان، ويكون كل من العبد والدار محبوسا على ملك الميت في حق المنفعة حتى يتملكها الموصى له على ملكه، كما يستوفي الموقوف عليه منافع الوقف على حكم ملك الواقف. (و) صحت الوصية (بغلتهما) أي العبد والدار.

(فإن خرجت الرقبة) أي رقبة العبد والدار (من الثلث) أي ثلث التركة (سلمت إليه) أي أعطيت للموصى له، لأن حقه في الثلث لا يزاحمه الورثة فيه (وإلا) أي وإن لم تخرج الرقبة من الثلث (قسمت الدار) قسمة الأجزاء أثلاثا."

(‌‌كتاب الوصايا ، ج : 3 ، ص :  436 ، ط : دار الأرقم)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله وإذا اجتمع الوصايا إلخ) اعلم أن الوصايا إما أن تكون كلها لله تعالى أو للعباد، أو يجمع بينهما، وأن اعتبار التقديم مختص بحقوقه تعالى لكون صاحب الحق واحدا، وأما إذا تعدد فلا يعتبر فما للعباد خاصة لا يعتبر فيها التقديم كما لو أوصى بثلثه لإنسان، ثم به لآخر إلا أن ينص على التقديم، أو يكون البعض عتقا أو محاباة على ما سيأتي، وما لله تعالى فإن كان كله فرائض كالزكاة والحج أو واجبات كالكفارات والنذور وصدقة الفطر أو تطوعا كالحج التطوع والصدقة للفقراء يبدأ بما بدأ به الميت، وإن اختلطت يبدأ بالفرائض قدمها الموصي، أو أخرها ثم بالواجبات وما جمع فيه بين حقه تعالى وحق العباد، فإنه يقسم الثلث على جميعها، ويجعل كل جهة من جهات القرب مفردة بالضرب ولا تجعل كلها جهة واحدة لأنه، وإن كان المقصود بجميعها وجه الله تعالى، فكل واحدة منها في نفسها مقصودة فتنفرد كوصايا الآدميين، ثم تجمع فيقدم فيها الأهم فالأهم، فلو قال ثلث مالي في الحج والزكاة ولزيد والكفارات قسم على أربعة أسهم."

(‌‌كتاب الوصايا ، ج : 6 ، ص : 661 ، ط : دار الفکر) 

العقود الدریہ میں ہے:

"سئل) فيما إذا مات زيد الموصى له بسكنى دار معلومة بعد موت الموصي فهل تعود الدار إلى ورثة الموصي لا إلى ورثة الموصى له؟

(الجواب) : نعم قال في الدرر من باب الوصية بالخدمة، والسكنى " وبعد موته أي موت الموصى له يعود أي الموصى به إلى الورثة لأن الموصي أوجب الحق للموصى له ليستوفي المنافع على حكم ملكه فلو انتقل إلى وارث الموصى له استحقها ابتداء من ملك الموصي بلا رضاه وهو غير جائز.اهـ. ومثله في التنوير، والملتقى وغيرهما."

  (‌‌كتاب الوصايا ، ج :2 ، ص :  281 ط :دار المعرفة )

درر الحكام شرح غرر الأحكام میں ہے :

"وتقبل الشهادة لأخيه وعمه...."

(باب القبول وعدمه ، ج : 2 ، ص : 377 ، ط:دار إحياء الكتب)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفدى) لزوما (عنه) أي عن الميت (وليه) الذي يتصرف في ماله (كالفطرة) قدرا (بعد قدرته عليه) أي على قضاء الصوم (وفوته) أي فوت القضاء بالموت فلو فاته عشرة أيام فقدر على خمسة فداها فقط (بوصيته من الثلث) متعلق بفدى وهذا لو له وارث وإلا فمن الكل قهستاني (وإن) لم يوص و (تبرع وليه به جاز) إن شاء الله."(الدر)

"قوله لزوما) أي فداء لازما فهو مفعول مطلق أي يلزم الولي الفداء عنه من الثلث إذا أوصى وإلا فلا يلزم بل يجوز قال في السراج: وعلى هذا الزكاة لا يلزم الوارث إخراجها عنه إلا إذا أوصى إلا أن يتبرع الوارث بإخراجها...."

"قوله من الثلث) أي ثلث ماله بعد تجهيزه وإيفاء ديون العباد، فلو زادت الفدية على الثلث لا يجب الزائد إلا بإجازة الوارث (قوله وهذا) أي إخراجها من الثلث فقط لو له وارث لم يرض بالزائد..."

(کتاب الصوم ، فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم ، ج : 2 ، ص : 424 ، ط : دار الفکر)

دررالحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"إذا ‌طلب أحد الشريكين القسمة وامتنع الآخر فيقسمه القاضي جبرا إن كان المال المشترك قابلا للقسمة وإلا فلا يقسمه  على ما يبين في الفصل الثالث والرابع) يشترط في قسمة القضاء أن يكون المال المشترك قابلا للقسمة فلذلك ‌إذا ‌طلب أحد الشريكين القسمة وامتنع الآخر عنها فيقسمه القاضي جبرا أي حكما إذا كان المال المشترك قابلا للقسمة؛ لأن القسمة هي لتكميل المنفعة والتقسيم في المال القابل للقسمة أمر لازم ."(مجمع الأنهر)

(المادة ؛ (1130) طلب أحد الشريكين القسمة وامتنع الآخر ، ج : 3 ، ص : 128 ، ط : دار الجيل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511102739

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں