بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1446ھ 26 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

وٹہ سٹہ کی شادی کی جائز صورت


سوال

زید نے کچھ رقم بطور مہر متعین کرکے خالد کے بیٹے اسلم کو اپنی بیٹی اس شرط پر دی، کہ خالد بھی اپنی بیٹی زید کے بیٹے بکر کو دے گا ،اب خالد اپنی بیٹی زید کے بیٹے بکر کو نہیں بلکہ ندیم کو دینا چاہتا ہے، کیا یہ درست ہے؟ نیز خالد نے اپنی بیٹی ندیم کو دینا چاہی تو زید نے خالد کو کہا ،کہ میرے بیٹے بکر کو اگر اپنی بیٹی نہیں دیتے تو اس کے عوض مجھے تین لاکھ روپے دو تاکہ میں اور جگہ اس کا رشتہ کروا سکوں ورنہ آپ کی بیٹی کا رشتہ ندیم سے نہیں ہونے دوں گا ،کیونکہ وہ میرے بیٹے بکر کا عوض ہے ،پھر خالد نے ندیم کو کہا آپ نے مجھے چھ لاکھ روپے دینے ہیں تب رشتہ دوں گا ،تین لاکھ روپے زید کو دینے ہیں اور تین لاکھ روپے اپنی بیٹی کا حق مہر رکھوں گا۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا زید کے لئے خالد سے تین لاکھ روپے کا مطالبہ کرنا درست ہے ،نیز کیا یہ رقم ندیم سے لے کر خالد زید کو دے سکتا ہے یا نہیں ؟اس رقم کا اصل مالک کون ہے؟ نیز یہ رقم خالد کی بیٹی کا مہر بن سکتی ہے یا نہیں ؟کیونکہ ندیم سے لی گئی ہے، کیا زید کے لئے خالد سے یہ رقم لینا جائز ہے یا نہیں؟زید کا کہناہے کہ یہ رقم لینا میری مجبوری ہے، کیونکہ پھر میں اپنے بیٹے کو شادی نہیں کروا سکتا ،یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے کہ کبھی اپنے لئے بھی اس طرح رقم لی جاتی ہے ،یعنی فرض کرو زید کو بیٹے کی شادی نہیں کروانی ہے لیکن چونکہ اس نے بیٹی عوض کے طور پر دی ہے اب خالد اس کو اپنی بیٹی نہیں دے رہا تو یہ رقم کا مطالبہ کرتا ہے کہ اتنے پیسے مجھے دو پھر اس بیٹی کا نکاح چاہے جس سے بھی کرواؤ کیوں کہ آپ کی یہ بیٹی میرے بیٹے کا عوض ہے، مثلا تین لاکھ روپے مجھے دو پھر اس بیٹی کا نکاح مثلا ندیم سے کرواؤ ،اس ساری صورتحال کی شرعی حیثیت واضح کیجئے ،کیوں کہ ایسا ہمارے گاوں میں بہت ہوتا ہے نیز بیٹی کے حق مہر کے پیسے بھی یہ لوگ نہیں بخشتے ہیں ،وہ بھی برائے نام اس کے لئے سامان وغیرہ خرید کر بقیہ اپنی ملکیت سمجھ کر ہڑپ کر جاتے ہیں ذرا اس پر بھی روشنی ڈالئے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر جانبین سے با قاعدہ مہر طے کر کے مذکورہ نکاح ہوتا ہے،تو  جائز ہے،پس   ہرایک کو اپنی  بیٹی  اگر وہ بالغہ ہےاور اس نکاح کےلیے  راضی بھی ہےتو دوسرے کے بیٹے کو  وعدہ کی مطابق   دینا لازم ہے،ورنہ وعدہ خلافی کا گناہ ہوگااور اگر بیٹیاں نا با لغ ہیں اور اس نکاح کے لیے راضی  بھی نہیں ہے تو بلو غت کے بعد ان کو نکاح کے ختم کرنے کا حق حا صل ہو گا  ،تاہم اگر کسی عذر شرعی  کے بناء پر اس وعدہ کو  پورا نہ کرسکے، تو وعدہ خلافی کے بدلے  کسی کے لیے  رقم کا مطالبہ کرنا  حرام ہے، نیز حق  مہر کی پوری رقم بیٹی ہی کی ملکیت ہے،اس کی رضامندی کے بغیر لینا جا ئز نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله وهو منهي عنه لخلوه عن المهر إلخ).

أن متعلق النهي مسمى الشغار المأخوذ في مفهومه خلوه عن المهر وكون البضع صداقا."

(کتاب النکاح،مطلب نکاح الشغار،105/3،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"ومن السحت: ما يأخذه الصهر من الختن بسبب بنته بطيب نفسه حتى لو كان بطلبه يرجع الختن به مجتبى."

(کتاب الحظر والاباحۃ  ،فرع یکرہ اعطاء سائل،424/6، ط:سعید)

بخاری شریف میں ہے:

" عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: آية ‌المنافق ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان."

(‌‌كتاب الأدب،‌‌باب قول الله تعالى {يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وكونوا مع الصادقين}وما ينهى عن الكذب،رقم الحدیث:6095،ط:رحمانیة)

ترجمہ:حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا کہ منافق کی تین علامتیں ہیں،جب بولتا ہےتو جھوٹ بولتا ہےاور جب وعدہ کرتا ہےتو خلاف کرتا ہےاور جب امین بنایا جاتا ہےتو خیانت کرتا ہے۔(نصر الباری)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"عن زيد بن أرقم - رضي الله عنه - عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إذا وعد الرجل أخاه ومن نيته أن يفي له، فلم يف ولم يجئ للميعاد، فلا إثم عليه"( رواه أبو داود، والترمذي)

(عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا وعد الرجل أخاه ومن نيته أن يفي  ) : بفتح فكسر وأصله أن يوفي (له) أي: للرجل (فلم يف) أي: بعذر (ولم يجئ للميعاد) أي: لمانع (فلا إثم عليه) . قال الأشرف: هذا دليل على أن النية الصالحة يثاب الرجل عليها وإن لم يقترن معها المنوي وتخلف عنها. اهـ. ومفهومه أن من وعد وليس من نيته أن يفي، فعليه الإثم سواء وفى به أو لم يف، فإنه من أخلاق المنافقين، ولا تعرض فيه لمن وعد ونيته أن يفي ولم يف بغير عذر، فلا دليل لما قيل من أنه دل على أن الوفاء بالوعد ليس بواجب، إذ هو أمر مسكوت عنه على ما حررته، وسيجيء بسط الكلام على هذا المرام في آخر باب المزاح."

( كتاب الآداب، باب الوعد، ج:7، ص:3069،  ط:دارالفکر)

فقط  واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100941

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں