میں گاؤں کو شگرام کا باشندہ ہوں ۔ جہاں میرے والدین واقربا موجود ہیں ،میں نے کسی وجہ سے مع اپنے اہل وعیال کے اپنا وطن چھوڑ کر ایبٹ آباد میں رہائش اختیار کی، ان دونوں جگہوں کا فاصلہ تقریبًا ڈیڑھ سو کلومیٹرہے ۔اب اگر میں وہاں سے اپنے وطن اصلی یعنی کوشگرام پندرہ روز سے کم قیام کےلئے جاتا ہوں تو کیا میں قصر پڑھوں گا یا پوری نماز ادا کروں گا ؟
اگرکوئی شخص اپنےآبائی وطن سےاہل وعیال سمیت کسی دوسری جگہ مسافتِ سفر پر منتقل ہوکرمستقل سکونت اختیارکرتاہے،اورآئندہ اس علاقے میں نہ رہنےکاعزم کرلیتاہے،تواس کاوطن اصلی باطل ہوجاتا ہے،اوریہ دوسراعلاقہ اس کاوطن اصلی کہلائےگا،لہذااگرکہیں کسی وجہ سےاپنےآبائی وطن جائےگا،توپندرہ دن سےکم ٹھہرنےکی صورت میں مسافرہوگا، انفرادی طور پریا امام بن کر نماز پڑھانے کی صورت میں چار رکعت والی فرض نمازیں قصرکرےگا۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگرآپ اپنےآبائی علاقہ کوشگرام کوچھوڑکرایبٹ آباد میں اپنےاہل وعیال سمیت مستقل طورپررہائش پذیرہو گئے ہیں،اورآپ کاآبائی علاقہ میں مستقل سکونت کی غرض سےواپس جانےکاکوئی ارادہ نہ ہو،اور دونوں کے درمیان ڈیڑھ سو کلو میٹرکا فاصلہ ہو توایبٹ آبادآپ کا وطن اصلی ہے،اوراس سےآبائی علاقےکاوطن اصلی ہوناباطل ہوچکاہے،لہذااگرآپ اپنےآبائی علاقے میں پندرہ دن سے کم کےلیےجائیں گے،توقصرکریں گے، لیکن اگر آپ نے کوشگرام سے مستقل سکونت کو ختم نہیں کیا، اس جگہ گھر موجود ہے، دونوں مقامات پر سکونت برقرار رکھی ہے تو پھر آبائی علاقے کی وطنیت برقرار رہے گی اور وہاں پندرہ دن سے کم قیام کرنے پر بھی مکمل نماز پڑھنی ہوگی۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144404101104
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن