بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

وطن اصلی کی تبدیلی


سوال

میں  گاؤں کو شگرام کا باشندہ ہوں ۔ جہاں میرے والدین واقربا موجود ہیں ،میں نے کسی وجہ سے مع  اپنے اہل وعیال کے اپنا وطن چھوڑ کر ایبٹ آباد میں رہائش اختیار کی، ان دونوں جگہوں کا فاصلہ تقریبًا ڈیڑھ سو کلومیٹرہے ۔اب اگر میں وہاں سے اپنے وطن اصلی یعنی کوشگرام پندرہ روز سے کم قیام کےلئے جاتا ہوں تو کیا میں قصر پڑھوں گا  یا پوری نماز ادا کروں گا ؟

جواب

    اگرکوئی شخص اپنےآبائی وطن سےاہل وعیال سمیت کسی دوسری جگہ مسافتِ سفر پر منتقل ہوکرمستقل سکونت اختیارکرتاہے،اورآئندہ اس علاقے میں نہ رہنےکاعزم کرلیتاہے،تواس کاوطن اصلی باطل ہوجاتا ہے،اوریہ دوسراعلاقہ اس کاوطن اصلی کہلائےگا،لہذااگرکہیں کسی وجہ سےاپنےآبائی وطن جائےگا،توپندرہ دن سےکم ٹھہرنےکی صورت میں مسافرہوگا، انفرادی طور پریا امام بن کر نماز پڑھانے کی صورت میں چار رکعت والی فرض نمازیں قصرکرےگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگرآپ اپنےآبائی علاقہ کوشگرام کوچھوڑکرایبٹ آباد میں اپنےاہل وعیال سمیت مستقل طورپررہائش پذیرہو گئے ہیں،اورآپ کاآبائی علاقہ میں   مستقل سکونت کی غرض سےواپس جانےکاکوئی ارادہ نہ ہو،اور دونوں کے درمیان ڈیڑھ سو کلو میٹرکا فاصلہ ہو توایبٹ آبادآپ کا وطن اصلی ہے،اوراس سےآبائی علاقےکاوطن اصلی ہوناباطل ہوچکاہے،لہذااگرآپ اپنےآبائی علاقے میں پندرہ دن سے کم کےلیےجائیں گے،توقصرکریں گے، لیکن اگر آپ نے کوشگرام سے مستقل سکونت کو ختم نہیں کیا، اس جگہ گھر موجود ہے، دونوں مقامات پر سکونت برقرار رکھی ہے  تو پھر آبائی علاقے کی وطنیت برقرار رہے گی اور وہاں پندرہ دن سے کم قیام کرنے پر بھی مکمل نماز پڑھنی ہوگی۔

  • ثم الأوطان ثلاثة وطن أصلي وهو وطن الإنسان في بلدته أو بلدة أخرى اتخذها دارا وتوطن بها مع أهله وولده وليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بها۔۔۔ فالوطن الأصلي ينتقض بمثله لا غير. وهو أن يتوطن الإنسان في بلدة أخرى وينقل الأهل إليها من بلدته فيخرج الأول من أن يكون وطنا أصليا له حتى لو دخل فيه مسافرا لا تصيرصلاته أربعا(بدائع الصّنائع،کتاب الصّلوۃ،باب صلوۃ المسافر،103/1، دارالكتب العلمية)
  • ( الوطن الأصلي ) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه(یبطل بمثلہ)إذا لم يبق له بالأول أهل فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما.وقال الشامی تحتہ: أي وإن بقي له فيه عقار. قال في النهر : ولو نقل أهله ومتاعه وله دور في البلد لا تبقى وطنا له وقيل تبقى كذا في المحيط وغيره(الدّرالمختارمع ردّالمحتار،کتاب الصّلوۃ،باب صلوۃالمسافر،ج 131/2، سعيد)
  • ( ويبطل الوطن الأصلي بمثله۔۔۔)وفي المجتبى نقل القولين فيما إذا نقل أهله ومتاعه وبقي له دور وعقار ثم قال وهذا جواب واقعة ابتلينا بها وكثير من المسلمين المتوطنين في البلاد ولهم دور وعقار في القرى البعيدة منها يصيفون بها بأهلهم ومتاعهم فلا بد من حفظها أنهما وطنان له لا يبطل أحدهما بالآخر۔(البحرالرائق،كتاب الصلوة،باب المسافر،147/2، دارالكتاب الاسلامي)
  • وطن أصلي وهو مولد الرجل أو البلد الذي تأهل بهويبطل الوطن الأصلي بالوطن الأصلي إذا انتقل عن الأول بأهله وأما إذا لم ينتقل بأهله ولكنه استحدث أهلا ببلدة أخرى فلا يبطل وطنه الأول ويتم فيهما(الفتاوى الهندية،الباب الخامس عشرفى صلاة المسافر،142/1، رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101104

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں