میں اور میری اہلیہ 20 سال کے عرصے سے آسٹریلیا میں ایک اسلامی ادارے میں خدمت سرانجام دے رہے ہیں ،جس میں حفظ ،درس نظامی، تخصص فی الفقہ اور سکول ہائی سکول بھی کراتے ہیں، اس ادارے میں تبلیغ کا مرکز بھی ہے،الحمدللہ اس ادارے میں 13/ 14 سو بچے اور بچیاں دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور یہ ادارہ صرف مسلمانوں کے بچے اور بچیوں کی تربیت کے لیے بنایا گیا ہے ۔ ادارے کی نگرانی پاکستان کے چند بزرگ حضرات فرماتے ہیں، میں اور میری اہلیہ اس ادارے سے منسلک ہیں اور الحمدللہ یہاں بہت بڑی مسجد ہے، جس میں کتاب و حفظ کے بچے اور بچیاں شرعی پردے میں آتی ہیں، یہاں (آسٹریلیا میں) بچوں کے مدرسے میری زیر نگرانی چل رہے ہیں، میری اہلیہ بھی کراچی مدرسہ عائشہ کی فاضلہ ہے،ا ن کا کہنا ہے کہ ہمارا یہاں پر رہنا جائز نہیں، کیوں کہ (بقول ان کے) یہاں کافروں کا نظام ہے، دین کو بچانا مشکل ہے ، بچے کبھی بھی بغاوت کر سکتے ہیں، پھر ہم ان کو قابو نہیں کرسکیں گے،میرے بچے آسٹریلیا سے آنے پر خوش نہیں ،بچیوں نے یہاں ہی حفظ کیا ہے، الحمدللہ شرعی پردے میں رہتی ہیں، میرا اور میرے بچوں کا اصرار ہے کہ یہاں آسٹریلیا میں رہیں، ہم ایک ایسے ادارے اور علاقے میں رہتے ہیں جہاں پر ہمارا دین محفوظ ہے، گھر کا ماحول اسلامی ہےچونکہ ہمارے علاقے میں مسلمانوں کی کثرت ہے اس لئے آپس میں پڑوس کا ماحول بھی عموماً اسلامی ہے۔
اب جب ہماری اہلیہ نہیں مان رہیں، وہ اپنی بات پربضد ہیں تو ہمارا گھر سارا بکھراہوا اور ڈسٹرب ہے۔ ایک بچی یہاں میرے ساتھ آسٹریلیا میں ہے اور دو بچے ( ایک بچی اور ایک بچہ) اہلیہ کے پاس پاکستان میں ہیں، بچہ چھوٹا ہے، بچی پاکستان میں رہنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہے۔ میں اس ادارے کے بورڈ میں بھی ہوں اور ادارہ ایک طرح میری نگرانی میں چل رہا ہے، مسجد بھی میری نگرانی میں ہے اور میں تبلیغی اعمال میں بھی شرکت کر رہا ہوں۔ میری اہلیہ بھی بنات کی کتابوں کی تعلیم کو سنبھال رہی ہیں۔
ہمیں خدشہ ہے کہ ہمارے جانے سے ان اداروں کو نقصان نہ ہو، جس میں مسلمانوں کے سینکڑوں بچے اور بچیاں دین کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، دوسرا خطرہ یہ بھی ہے کہ جب ہماری بچیاں پاکستان میں نہیں رہنا چاہتیں تو ہمیں ڈر ہے کہ وہ بغاوت کر کے آسٹریلیا ناآ جائیں پھر تو شدید نقصان کا خطرہ ہے، اس صورت میں تو وہ والدین کی نگرانی کے بغیر زندگی جئیں گی ۔
الحاصل جب میرا ( دلائل پر مبنی) کہنا ہے کہ ہمارا دین اس ملک میں محفوظ ہے اور ہمارے حالات ان لوگوں کی طرح نہیں ہیں جو یہاں عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ میری اہلیہ کا کہنا ہے کہ ہمارا اس ملک میں رہنا جائز نہیں ۔میری یہ ساری باتیں بحیثیت شوہر ہونے کے ہیں، کیا میری بیوی گناہ گار ہوگی اگر وہ میری بات نہ مانےتو؟ ان کا رہنا پاکستان میں بالکل ٹھیک نہیں ، میں اس پر راضی نہیں ،اور نہ ہی انہیں پاکستان میں رہنے کی اجازت ہے ۔ اس مسئلے میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔
واضح رہے کہ اگر کسی مسلمان کودیارِ غیر میں رہتے ہوئے اس بات کا مکمل اعتماد اور یقین ہو کہ وہ دین و ایمان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ،شریعت کی مکمل پیروی کرے گا،اپنے گھر والوں کی دینی تربیت میں کوئی کمی نہیں کرے گا اور کسی معقول وجہ سے دیارِ غیر میں جاکر رہائش اختیار کرتا ہے تو یہ جائز ہے۔دوم یہ کہ بیوی شوہر کی تابع ہے ، شوہر جہاں رہائش پذیر ہو اگر بیوی کو اپنے ہمراہ رہنے کا انتظام کرے تو بیوی کو شوہر کے ساتھ رہناضروری ہوتا ہے۔
صورتِ مسئولہ میں سائل کے بیان کے مطابق جہاں سائل رہائش پذیر ہے،وہاں عموما ً اسلامی ماحول ہے ، اور وہاں کے ادارے کی سرپرستی بھی اس کے ذمہ ہے ،جہاں پر دین کا وسیع پیمانے پر کام چل رہا ہے،اس لیے وہاں کی رہائش اختیار کرنے میں بظاہر ایسی وجہ نہیں کہ دین و ایمان کی حفاظت ممکن نہ ہو ،اور بچوں کی دینی تربیت نہ ہو ، لہذا سائل کی اہلیہ پر لازم ہے وہ اپنے شوہر کی اطاعت کرے ، ان کی بات مان کر ان کے ساتھ دین کے شعبوں میں ان کی ممد و معاون بنے، اپنے شوہر کو اپنے سے بالاتر سمجھے، اس کی وفاداری اور فرماں برداری کرے، اس کی خیرخواہی اور رضا جوئی میں کمی نہ کرے، اپنی دنیا اور آخرت کی بھلائی اس کی خوشی سے وابستہ سمجھے۔نیز سائل نے طویل جدو جہد اور محنت سےدینی ادارے کا قیام کیا جب کہ سینکڑوں طلبہ بھی ان کے ادارے سے منسلک ہیں اور علوم حاصل کررہے ہیں اور اب ان کی اہلیہ کا مذکورہ بالاعذر بتلانا قبل از وقت ہے ۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: المرأة إذا صلت خمسها وصامت شهرها وأحصنت فرجها وأطاعت بعلها فلتدخل من أي أبواب الجنة شاءت."
(كتاب النكاح، باب عشر النساء، ج: 2، ص: 971، رقم الحدیث: 3254، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)
"ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جس عورت نے (اپنی پاکی کے دنوں میں پابندی کے ساتھ) پانچوں وقت کی نماز پڑھی، رمضان کے (ادا اور قضا) رکھے، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی اور اپنے خاوند کی فرماں برداری کی تو (اس عورت کے لیے یہ بشارت ہےکہ) وہ جس دروازہ سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔"
(مظاہر حق، ج:3، ص: 366، ط: دارالاشاعت)
سنن ابی داودمیں ہے :
"عن سمرة بن جندب: أما بعد، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من جامع المشرك وسكن معه فإنه مثله."
(كتاب الجهاد، باب في الإقامة بأرض الشرك، ج: 4، ص: 413 ، رقم الحدیث: 2787، ط: دار الرسالة العالمية)
بذل المجهود میں ہے:
"(من جامع المشرك) أي: اجتمع معه في دار أو بلد، والأحسن أن يقال: معناه اجتمع معه، أي: اشترك في الرسوم والعادة والهيئة والزي، وأما قوله: (وسكن معه) علة له، أي: سكناه معه صار علة لتوافقه في الهيئة والزي والخصال (فإنه مثله) نقل في الحاشية عن "فتح الودود": فإنه مثله، أي: يقارب أن يصير مثلا له لتأثير الجوار والصحبة، ويحتمل أنه تغليظ."
(كتاب الجهاد، باب في الإقامة بأرض الشرك، ج: 9، ص: 252، رقم الحدیث: 2787، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية)
بدائع الصنائع میں ہے:
"النكاح ما دام قائما يلزمها اتباع الزوج فإذا زال فقد زال المانع."
(كتاب الحضانة، ج: 4، ص: 44، ط: دار الكتب العلمية)
تحفۃ الفقہاء میں ہے:
"أما إذا أرادت الخروج إلى بلدها وكان البلد بعيدا فإن وقع النكاح فيه ليس للأب حق المنع لأنه لما عقد النكاح ثم فالظاهر أنه التزم المقام فيه لأن الظاهر أن الزوج يقيم في البلد الذي تزوج فيه إلا أنه يلزمها اتباع الزوج إذا أعطى جميع المهر حيث شاء."
(كتاب الطلاق، باب الحضانة، ج: 2، ص: 231، ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144602100197
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن