میں ایک ویلفیئر بنانا چاہتا ہوں، جس میں مخیر حضرات سے چندہ(زکات، صدقات وغیرہ) وصول کیا جائے گا، پھر اس کے ذریعے آگے مستحق لوگوں میں وہ رقم تقسیم ہوگی، یا اگر راشن وغیرہ ہوتو وہ تقسیم کیا جائے گا۔
1۔اس سلسلےمیں یہ سوال پوچھنا ہے کہ ویلفیئر بنانے والے کا اپنا کوئی اور کمائی کا سلسلہ بھی نہیں ہے تو کیا اس رقم سے وہ اپنے لیے تنخواہ لے سکتا ہے؟
2۔اسی طرح وہ ملازمین بھرتی کرے گا جو چندہ جمع کرنے تقسیم کرنے اور دیگر کاموں کے لیے ضروری ہوں گے، تو ان کو تنخواہ دینی ہوگی تو تنخواہ کتنے فی صد دی جاسکتی ہے؟ اور خود ویلفیئر بنانے والاکتنی تنخواہ لے سکتا ہے؟
3۔اس رقم سے اخبار وغیرہ میں ویلفیئر سے متعلق امداد کے لیے اشتہار دیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ شریعت مطہرہ میں بلا محنت کی کمائی کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور اپنی محنت کی کمائی کی ترغیب ہے اور اپنے ہاتھ کی کمائی کو سب سے افضل کمائی قراردیا ہے ، لہٰذا(اگر سائل کا مقصد اپنے روزگار کا حصول ہے تو )ویلفیئر بنانا اور اس کو اپنا روزگار بنانا مناسب نہیں، بل کہ بہتر یہ ہے کہ کوئی دوسرا مناسب حلال آمدن کا ذریعہ تلاش کرے۔
لیکن اگر سائل کا مقصد واقعی ویلفیئر بنانے سے عوام الناس کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرنا ہو تو یہ بہت اچھا قدم ہے، لیکن اس میں چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ زکات صدقات وغیرہ سب الگ الگ جمع ہوں اور صحیح مصرف میں خرچ ہوں، ورنہ یہ سخت گناہ گار ہوگا۔
1،2،3۔ ویلیفیئر بنانے والا کا خود تنخواہ لینا، ملازمین کو تنخواہ دینا اور امداد کے لیے اشتہار دینا زکات کی رقم سے جائز نہیں، کیوں کہ زکوٰۃ اور صدقات واجبہ (فطرہ، کفارہ، فدیہ اور منت وغیرہ) کی رقم ہو تو زکوٰۃ اور صدقات ِ واجبہ بغیر عوض مستحق کو مالک بناکر دینا ضروری ہوتا ہے ، جب کہ تنخواہ محنت کا عوض ہے ۔
البتہ نفلی صدقات و عطیات ہوں تو دیکھا جائے گا کہ لوگوں نے یہ کس لیے دیے ہیں؟ اگر لوگوں نے صدقات و عطیات ویلفیئر کو فقراء اور مساکین پر خرچ کرنے کے لیے دیے ہیں تو اس سے بھی تنخواہ دینا جائز نہیں اور اگر نفلی صدقات اور عطیات کا چندہ کرتے ہوئے ویلفیئر اور اس کی جملہ ضروریات کو بھی مصارف میں بتایا جائے کہ اس سے ویلفیئر کی جملہ ضروریات بشمول ملازمین کی تنخواہیں ، اشتہارات کا خرچہ وغیرہ پوری کی جائیں گی تو ان صورتوں میں سائل کے لیے مذکورہ ویلفیئر میں اپنی خدمات سرانجام دینے کے عوض ضابطہ اور عرف کے مطابق تنخواہ وصول کرنا جائز ہوگا ، البتہ تنخواہ کا تعین اپنے لیے اور ملازمین کے لیے خود کرنے کے بجائے مالیات کے شعبہ میں دو، تین مخلص دیانت دار ساتھیوں کو مقرر کرلے اور مالی معاملات اور تنخواہیں سب کے مشورے سے متعین کی جائیں ، تاکہ تہمت کا خطرہ نہ ہو۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
2783 -[25] "وعن رافع بن خديج قال: قيل: يا رسول الله أي الكسب أطيب؟ قال: «عمل الرجل بيده وكل بيع مبرور".
(كتاب البيوع، الفصل الثالث، ج:2، ص:847، ط: المكتب الإسلامي)
ترجمہ:"اور حضرت رافع بن خدیج راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ سے یہ پوچھا گیا کہ کو ن سی کمائی پاکیزہ (یعنی افضل ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کمانا اور ہر وہ تجارت جو مقبول (یعنی شرعی اصول و قواعد کے مطابق ہو "۔(مظاہر حق)
تشریح : آپ ﷺ کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ سب سے بہتر تو وہ کسب و پیشہ ہے جس میں انسان کو اپنے ہاتھوں سے محنت کرنی پڑتی ہو جیسے زراعت اور کتابت وغیرہ اور اگر کوئی شخص ہاتھوں کی محنت والا کسب اختیار نہ کر سکے تو پھر ایسی تجارت کے ذریعے اپنی حلال روزی پیدا کرے جس میں دیانت وامانت کی روح بہر صورت کار فرما ر ہے کیونکہ ایسی تجارت بھی ایک پاک و حلال کسب ہے۔(مظاہر حق)
فتاوی شامی میں ہے:
"ولو دفعها المعلم لخليفته إن كان بحيث يعمل له لو لم يعطه وإلا لا.
(قوله: وإلا لا) أي؛ لأن المدفوع يكون بمنزلة العوض".
(كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، ج:2، ص:356، ط: سعيد)
وفیہ أیضاً:
"مطلب في أجرة صك القاضي والمفتي.
(قوله يستحق القاضي الأجر إلخ) قيل على المدعي إذ به إحياء حقه فنفعه له، وقيل على المدعى عليه إذ هو يأخذ السجل، وقيل على من استأجر الكاتب، وإن لم يأمره أحد وأمره القاضي فعلى من يأخذ السجل، وعلى هذا أجرة الصكاك على من يأخذ الصك في عرفنا، وقيل يعتبر العرف جامع الفصولين. وفي المنح عن الزاهدي: هذا إذا لم يكن له في بيت المال شيء اهـ تأمل.
(قوله قدر ما يجوز لغيره) قال في جامع الفصولين: للقاضي أن يأخذ ما يجوز لغيره، وما قيل في كل ألف خمسة دراهم لا نقول به ولا يليق ذلك بالفقه، وأي مشقة للكاتب في كثرة الثمن؟ وإنما أجر مثله بقدر مشقته أو بقدر عمله في صنعته أيضا كحكاك وثقاب يستأجر بأجر كثير في مشقة قليلة اهـ. قال بعض الفضلاء: أفهم ذلك جواز أخذ الأجرة الزائدة وإن كان العمل مشقته قليلة ونظرهم لمنفعة المكتوب له اهـ.
قلت: ولا يخرج ذلك عن أجرة مثله، فإن من تفرغ لهذا العمل كثقاب اللآلئ مثلا لا يأخذ الأجر على قدر مشقته فإنه لا يقوم بمؤنته، ولو ألزمناه ذلك لزم ضياع هذه الصنعة فكان ذلك أجر مثله".
(كتاب الإجارة، باب فسخ الإجارة، ج:6، ص:92، ط: سعيد)
وفیہ أیضاً:
"وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت".
(كتاب الزكاة، ج:2، ص:269، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144605101387
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن