بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ویلفیئر کے انتظامی اخراجات اور ملازمین کی تنخواہ زکوٰۃ سے ادا کرنا


سوال

ہماری برادری کاایک  ویلفیئر ادارہ ہے، جس میں زکوٰۃ کمیٹی اور مصالحتی کمیٹی ہے، زکوٰۃ کمیٹی برادری کے مخیر حضرات سے زکوٰۃ جمع کرتی ہے اور برادری کے مستحق افراد  میں ذمہ داری  کے ساتھ  تقسیم  کرتے ہیں، اس ویلفیئرادارے کی ایک عمارت ہے، دو ملازمین ہیں، بجلی کے بل ، عمارت کی مینٹینس اورپانی کے اخراجات ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا  ان  ملازمین کی تنخواہ، بجلی کے بل ، عمارات کی مینٹینس اور پانی کے اخراجات ان زکوٰۃ کے جمع شدہ پیسوں سے ادا کی جاسکتی ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ   زکوٰۃ کی ادائیگی  کے لیے یہ ضروری ہے کہ  اسے کسی مسلمان ،مستحقِ زکوٰۃ  شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے ،  اس لیے رفاہی ، تعمیراتی ، انتظامی کاموں   یا  ملازمین کی تنخواہوں    میں زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنا جائز نہیں ہے،    کیوں کہ اس میں تملیک (کسی کو مالک بنانا) نہیں پایا جاتا، اس سے زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ بھی ادا نہیں ہوگی ، نیز  زکوٰۃ ادا کرنے  کے وکیل ”امین“ ہوتے ہیں،  لہذا جس مصرف کے لیے ان کو زکوٰۃ کی رقم دی گئی ہے، اسی  مصرف میں خرچ کرنا ان کے لیے ضروری ہوگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  مذکوہ ویلفیئر کے ادارے  کی عمارت  کی   مینٹینس ، بجلی کی بل، پانی کے اخراجات اور ملازمین  کی تنخواہیں زکوٰۃ کی رقم سے ادا کرنا جائز نہیں ہے، البتہ  اگر نفلی صدقات  وعطیات  ویلفیئر کی جملہ ضروریات کے لیے وصول کیے جائیں تو  ان سے مذکورہ  ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں۔

بدائع  الصنائع میں ہے:

"وأما ركن الزكاة فركن الزكاة هو إخراج جزء من النصاب إلى الله تعالى، وتسليم ذلك إليه يقطع المالك يده عنه بتمليكه من الفقير وتسليمه إليه أو إلى يد من هو نائب عنه، وكذا لو دفع زكاة ماله إلى صبي فقير أو مجنون فقير وقبض له وليه أبوه أو جده أو وصيهما جاز؛ لأن الولي يملك قبض الصدقة عنه."

(کتاب الزکاۃ، فصل: رکن الزکاۃ، 2 / 39، ط: دار الکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه) أما دين الحي الفقير فيجوز لو بأمره، ...وقدمنا لأن الحيلة أن يتصدق على الفقير ثم يأمره بفعل هذه الأشياء وهل له أن يخالف أمره؟ لم أره والظاهر نعم."

(كتاب الزكاة، باب المصرف، 2 /344،345،  ط: سعید)

وفیہ أیضاً:

"ولو دفعها المعلم لخلیفته إن کان بحیث یعمل له لو لم یعطه صح، و إلا لا."

(قوله: وإلا لا) أي؛ لأن المدفوع يكون بمنزلة العوض ط." 

(كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، فروع في مصرف الزكاة، 2/ 356، ط: سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144604102708

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں