بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

دو بیٹے اور دو بیٹیوں میں وراثت کی تقسیم


سوال

ہم چار بہن بھائی ہیں:1 ۔میں ہوں (میری ایک بیوی اور ایک بیٹا ہے) 2 ۔ مجھ سے بڑے ایک بھائی  جو کنوارے ہیں جو میرے ساتھ رہتے ہیں۔ 3 ۔ مجھ سے چھوٹی ایک بہن جو بیوہ ہیں اور تین بچے ہیں جن کا گزر بسر گھر سے آنے والےکرایہ پرہے۔ 4 ۔ سب سے چھوٹی بہن جو شادی شدہ ہیں چار بچے ہیں، دوسری منزل پر کرایہ پر رہتی ہیں، والدین انتقال کر چکے ہیں۔

ہمارے والدین نے زمین خرید کر ایک گھر بنایا جو کہ گراؤنڈ فلور پر تھا،اس گھرکے اوپر میں نے دو منزلیں( والدہ کی رضامندی سےجب وہ حیات تھیں) تعمیر کیں، اس غرض سے کہ اس میں سکونت اختیار کی جائے گی  یا پھر کرایہ پر دے دیا جائے گا اور ان سے جو کرایہ آۓ گا تو گھر کے اخراجات بھی پورے ہوسکیں گے اور مستقبل میں میں اپنے لیے کوئی زمین وغیرہ یا الگ گھر خرید سکوں گا۔ چنانچہ میرے بہنوئی کے انتقال کے بعد چھوٹی بہن اور ان کے بچے ہم دونوں  بھائیوں کے ساتھ فرسٹ فلور پر رہنے  لگے اور ہم نے گراؤنڈ فلور ایک فیملی کو اور سیکنڈ  فلور (سب سے چھوٹی بہن) کو کرایہ پر دے دیا اور ان سے حاصل ہونے والا کُل کرایہ میری بیوہ بہن اور ان کے بچوں کے اخراجات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مذکورہ صورت میں درج ذیل سوالات کے جوابات عنایت فرمائیں:

1۔اگر وراثت کی تقسیم مقصود ہو تو کس کس فرد کو کتنا حصہ دیاجائے گا؟  جب کہ اوپر کی دو منزلیں ایک فرد نے تعمیر کی ہوں، جس پر تقریباً بائیس لاکھ روپیہ خرچ ہوا تھا؟

2۔کیا گھر سے حاصل ہونے والے کرایہ کی مد میں جو آمدن ہوتی ہے اس میں دوسرے بہن بھائی بھی حصہ دار ہوں گے؟

3۔جیسا کہ آج کل پورشن کا طریقہ رائج ہے کہ ہر منزل کو الگ الگ قیمت پر الگ الگ مالکان کو بیچا جاتا ہے، کیا ایسی صورت میں صرف گراؤنڈ فلور جو کہ ہمارے والدین نے بنایا تھا بیچ کر وراثت کی تقسیم ہو سکتی ہے؟

4۔مشترکہ خاندانی نظام (جوائنٹ فیملی سسٹم) کی شریعت میں کیا حیثیت اور اہمیت ہے؟

جواب

1.صورتِ  مسئولہ میں جب کہ آپ کے والدین انتقال کرچکے ہیں اور ورثاء میں صرف آپ دو بھائی اور دو بہن ہیں  تو اس مکان کو نیز والد اور والدہ کے دیگر تمام ترکہ کو 6 حصوں میں تقسیم کیاجائے گا۔ جس میں سے 2،2، حصے  ہر ایک بھائی کو اور ایک، ایک حصہ ہر ایک بہن کو ملے گا۔یعنی فیصد کے اعتبار سے سائل اور اس کے بھائی میں سے ہر ایک کو 33.33 اور سائل کی ہر ایک بہن کو  16.66 ملے گا۔ 

والد کے مکان پر آپ نے جو دو منزلیں تعمیر کی ہیں اگر آپ نے یہ دو منزلیں دیگر ورثاء کی اجازت سے اپنی ذاتی رقم سے تعمیر کی تھیں تو تعمیر پر جو اخراجات آئے تھے،  موجودہ  گھر کی  کل مالیت سے منہا کر کے  تقسیم سے قبل خرچ شدہ رقم آپ کو ادا کی جائے گی، اور بقیہ رقم تمام ورثاء میں اوپر ذکر کردہ تفصیل کے مطابق تقسیم ہوگی اور اگر دیگر ورثاء کی اجازت کے بغیر آپ نے یہ دو منزلیں اپنے لیے تعمیر کی تھیں تو اس صورت میں آپ صرف ملبے کی قیمت کے حق دار بنتے ہیں۔

2. گھر کا جو حصہ کرایہ پر دیا ہوا ہے اس میں مذکورہ بالا تناسب سے جو کہ تقسیم وراثت کا تناسب ہے، اسی کے مطابق تمام ورثاء حاصل ہونے والے کرایہ میں شریک ہیں۔ البتہ جب تمام عاقل بالغ ہیں تو اپنی مرضی سے یہ رقم کسی ایک وارث کو دے سکتے ہیں۔

3.اگر تمام ورثاء باہمی اتفاق سے پورے گھر کو فروخت کرنے کے بجائے اس کا کچھ حصہ (جیساکہ سوال میں صرف گراؤنڈ فلور کا ذکر ہے) فروخت کرکے اس کی رقم آپس میں تقسیم کرنا چاہیں تو درست ہے۔

4.اگر خاندان کے افراد اتفاق رائے سے بغیر کسی جبر کے اکٹھے رہنا چاہیں تو  شریعت میں مشترکہ طور پر رہائش اختیار کرنا ممنوع نہیں ہے۔ البتہ اس صورت میں پردے کے لحاظ سے شرعی احکامات کا لحاظ رکھنا لازم ہے،لہذا مشترکہ خاندانی نظام میں جب غیر محرموں کا آمنا سامنا رہتا ہو تو عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو بڑی چادر سے چھپائے رکھے، مستقل چہرہ پر نقاب ڈال کر رکھنا ضروری نہیں ہے، البتہ  گھریلو امور انجام دیتے ہوئے بڑی چادر لے کر اس کا گھونگھٹ  بنالیا جائے؛ تاکہ چہرے پر غیر محرم کی نگاہ نہ پڑے، بلا  ضرورت غیر محرم (دیور، جیٹھ)  سے بات چیت نہ کی جائے، اگر کبھی کوئی ضروری بات یا کام ہو تو  آواز میں لچک پیدا کیے بغیر پردہ میں رہ کر ضرورت کی حد تک بات کی جائے۔ بے محابا اختلاط یا ہنسی مذاق  کرنے کی تو اجازت ہی نہیں، کبھی سارے گھر والے اکٹھے کھانے پر یا ویسے بھی  بیٹھے ہوں تو خواتین ایک طرف اور مرد ایک طرف رہیں، تاکہ اختلاط نہ ہو۔نیز  گھر کے نامحرم مرد بھی اس کا اہتمام کریں کہ گھر میں داخل ہوتے وقت بغیر اطلاع کے نہ داخل ہوں، بلکہ بتا کر یا کم ازکم کھنکار کر داخل ہوں، تاکہ کسی قسم کی بے پردگی نادانستگی میں بھی نہ ہو۔

نیز مشترکہ فیملی سسٹم میں مالی معاملات کے اعتبار سے بھی ہر ایک چیز کی وضاحت اور ملکیت کا تعین ہونا ہونا ضروری ہے، تاکہ بعد میں مالی معاملات آپس میں لڑائی جھگڑے کا باعث نہ ہوں۔

اور اگر مشترکہ طور پر رہنے میں پریشانی ہو اور خاندان کا کوئی فرد یا کوئی فیملی علیحدہ رہائش اختیار کرنا چاہتی ہو  تو الگ رہائش اختیار کرنا بھی شرعاً مذموم نہیں ہے، بلکہ شرعاً اس کی بھی اجازت ہے، اس صورت میں کسی ایک گھرانے کو اکٹھے رہنے پر مجبور کرنا درست نہیں ہوگا۔ فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144202201483

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں