بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

وفات کے بعدمال کا کچھ حصہ صدقہ جاریہ کرنے کی وصیت کرنا


سوال

میری عمر تقریبا ً پچاس سال ہے اور میں وصیت کرنا چاہتاہوں ، میں شمالی امریکا  میں مقیم ہوں،میرے ورثاء میں بیوی، دو غیر شادی شدہ بیٹیاں،چار بھائی (بالغ ،عاقل اور خودمختار ) اور ایک بہن (دوسری والدہ سے ) جو کہ شادی شدہ ہے، والدین فوت ہوچکے ہیں، میں وفات کے بعد کچھ حصہ اپنی جائیداد کا صدقہ جاریہ کرنا چاہتا ہوں؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں  سائل کا اپني جائیدا د میں سےکسی بھی ضرورت مند شخص ، مسجد، مدرسہ ،مسافر خانہ یا یتیم خانہ غرض خیر کے کسی بھی کام کے لیے اپنے کل مال سے ایک تہائی تک کی  وصیت کرنا شرعا ً جائز ہے ،  اور ایسے مصرف میں وقف کرنا جس کااثر مسلسل ہو مثلاً مسجد،مدرسہ،کنواں وغیرہ بنانا تو جب تک یہ سلسلہ قائم رہے گا اس کا ثواب  ملتا رہے گا ،البتہ ایک تہائی  سےزائد مال کی  وصیت کی تو ورثاء کی اجازت پر موقوف رہے گی۔

بدائع الصنائع میں ہے:

" رجل له ورثة صغار فأراد أن يوصي نظر في ذلك فإن كان أكبر رأيه أنه تقع الكفاية لهم بما سوى ثلث الوصية من المتروك فالوصية بالثلث أفضل لأن فيه رعاية الجانبين وإن كان أكبر رأيه أنه لا تقع الكفاية لهم إلا بكل المتروك فالمتروك لهم أفضل من الوصية لما روي :أن ‌سعد ‌بن ‌أبي ‌وقاص رضي الله عنه سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال بكم يوصي الرجل من ماله؟ فقال عليه الصلاة والسلام بالثلث والثلث كثير لأن تدع ورثتك أغنياء خير لك من أن تدعهم عالة يتكففون الناس."

( کتاب الاستحسان،130/5،ط:د ار الكتب العلمية)

فتاوی تاتا رخانیہ میں ہے:

"وإذا أوصي بثلث ماله لله تعالي، فالوصیة باطلة في قول أبي حنیفةؒ وفي قول محمدؒ الوصیة جائزۃ وتصرف إلي وجوہ البر وبقول محمد یفتي وتصرف إلي الفقراء .

 وفي الفتاوي الخلاصة :ولو أوصي بالثلث في وجوہ الخیر یصرف إلی القنطرۃ وبناء المسجد وطلب العلم".

( کتاب الوصایا، الفصل الثالث،393/19، ط:مکتبہ زکریا بدیوبند ۔الھند)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511100221

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں