بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

واٹس ایپ کی پروفائل پر جان دار کی تصویر لگانے کا حکم


سوال

واٹس ایپ کی پروفائل پر جان دار  کی یا شناخت کے لیے خود اپنی تصویر لگانا ازروئے شرع جائز ہے یا ناجائز؟  اگر ناجائز ہے تو جواز کی کوئی صورت ہے جیسا عمومِ بلوی اور ابتلاءِ عام ہوچکا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ  کی رو سے کسی بھی جان دار کی تصویر  بنانا،  دیکھنا اور دکھانا سب ناجائز ہے،  حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ کے دربار میں سب سے زیادہ  سخت عذاب تصویر بنانے والوں کو ہوگا،  ایک اور حدیث میں ہے کہ جس گھر میں کسی جان دار کی تصویر ہو، وہاں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے؛ اس لیے وا ٹس ایپ اکاؤنٹ کی پروفائل میں کسی بھی جان دار کی تصویر لگاناخواہ وہ شناخت کی غرض سے ہو ، از رو ے شرع ناجائز ہے۔

باقی رہا تصویر لگانے میں لوگوں کا ابتلاءِ عام، تو یاد رہے کہ کسی بھی حرام کام میں لوگوں کے عمومی طور پر مبتلا ہوجانےسے حرام کام جائز نہیں ہوتا،  تاہم اگر تصویر سے  سر کاٹ دیا جائےتو  وہ حرام تصویر کے حکم سے نکل جائے گی۔ 

حدیث شریف میں  ہے:

"عن أبي طلحة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا تدخل الملائكة بيتاً فيه صورة»".

 (صحيح البخاري: كتاب بدء الخلق، رقم:3226،  ص: 385، ط: دار ابن الجوزي. صحيح مسلم: كتاب اللباس والزينة، رقم:206،  ص: 512، ط: دار ابن الجوزي)

"عن عبد الله، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إن أشد الناس عذاباً عند الله يوم القيامة المصورون»".

(صحيح البخاري: كتاب اللباس، باب عذاب المصورين، رقم:5950،  ص: 463، ط: دار ابن الجوزي)

فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ".

 (حاشية ابن عابدين: كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، 1/647، ط: سعيد)

بلوغ القصدوالمرام میں  ہے:

"يحرم تصوير حيوان عاقل أو غيره إذا كان كامل الأعضاء، إذا كان يدوم، وكذا إن لم يدم على الراجح كتصويره من نحو قشر بطيخ. ويحرم النظر إليه؛ إذا النظر إلى المحرم لَحرام".

(جواہر الفقہ، تصویر کے شرعی احکام: ۷/264-265، از: بلوغ  القصد والمرام، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی) 

اسی طرح فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: أو مقطوعة الرأس) أي سواء كان من الأصل أو كان لها رأس ومحي، وسواء كان القطع بخيط خيط على جميع الرأس حتى لم يبق له أثر، أو بطليه بمغرة أو بنحته، أو بغسله؛ لأنها لاتعبد بدون الرأس عادةً، وأما قطع الرأس عن الجسد بخيط مع بقاء الرأس على حاله فلاينفي الكراهة؛ لأن من الطيور ما هو مطوق فلايتحقق القطع بذلك، وقيد بالرأس، لأنه لا اعتبار بإزالة الحاجبين أو العينين، لأنها تعبد بدونها، وكذا لا اعتبار بقطع اليدين أو الرجلين، بحر (قوله: أو ممحوة عضو إلخ) تعميم بعد تخصيص، وهل مثل ذلك ما لو كانت مثقوبة البطن مثلاً. والظاهر أنه لو كان الثقب كبيراً يظهر به نقصها فنعم، وإلا فلا؛ كما لو كان الثقب لوضع عصاً تمسك بها كمثل صور الخيال التي يلعب بها؛ لأنها تبقى معه صورة تامة، تأمل.هذا كله في اقتناء الصورة، وأما فعل التصوير فهو غير جائز مطلقاً، لأنه مضاهاة لخلق الله تعالى، كما مر". (۱/۶۴۸)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144110200396

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں