بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

وراثت کی تقسیم کے وقت کون سی قیمت کا اعتبار ہوگا؟


سوال

ہم تین بھائی ہیں ،ہماری والدہ کے حق مہر میں سوناتھا،والدہ کی وفات کے بعدبڑے بھائی نے زبردستی اس پرقبضہ کر لیا،ہم بھائیوں نے کئی بار حق کا مطالبہ کیا، لیکن کچھ نہیں دیا،پھر اس سونے کی قیمت مختلف اوقات میں مختلف جگہوں سے لگائی گئی،سوال یہ ہے کہ تر کہ کی تقسیم کے وقت ہماراحصہ موجودہ قیمت کے اعتبار سے بنتاہے یا گزشتہ قیمت کے اعتبار سے؟

نوٹ: والد کا انتقال والدہ کے انتقال کے بعد ہوا ہے۔

جواب

واضح  رہے کہ والدہ مرحومہ نے اپنے ترکہ میں جتنا سونا چھوڑا تھا ،اس میں مرحومہ کے تمام شرعی ورثاء حصص شرعیہ کے تناسب سے شریک ہیں، پس مذکورہ سونے پر ایک بیٹے کا قبضہ کرنا جائز نہیں، لہذا مذکورہ بیٹے پر والدہ مرحومہ  کے ترکہ کاسونا ان کے تمام شرعی ورثاء میں  ضابطۂ وراثت کے مطابق تقسیم کرنا شرعا لازم ہوگا،تقسیم نہ کرنے کی صورت میں مذکورہ بیٹا دیگر ورثاء کے حق کو ناحق غصب کرنے والا شمار ہوگا، جس پر احادیث میں سخت وعیدیں  وارد ہوئی ہیں، صورتِ مسئولہ میں مرحومہ کے حقوق متقدمہ یعنی مرحومہ کے ذمہ اگر کوئی قرض ہو، تو اسے ترکہ سے ادا کرنے کے بعد،اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو، تو اس کو باقی ترکہ کے ایک تہائی میں نافذ کرنے کے بعد، بقیہ کل ترکہ منقولہ و غیر منقولہ کو 3 حصوں میں تقسیم کر کے ایک ایک حصہ مرحومہ کے ہر ایک بیٹے کو ملے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت(والدہ مرحومہ اوروالدمرحوم):3

بیٹابیٹابیٹا
111

یعنی ترکہ میں شامل سونے کا 33.33 فیصد مرحومہ کے ہر ایک بیٹے کو ملے گا ۔

مذکورہ  سونا اگر بعینہ تقسیم کرنا ممکن ہو،تو ہر ایک بیٹے کو 33.33 فیصد سونا دینا ضروری ہوگا،اور اگر بعینہ سونے کی تقسیم ممکن نہ ہو ،تو تقسیم کے وقت سونا جتنے میں فروخت ہو، اس رقم کو مذکورہ بالا فیصد کے تناسب سے مرحومہ کے ہر ایک بیٹے کو دینا ضروری ہوگا۔

صحیح مسلم میں ہے:

" عن ‌سعيد بن زيد قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: « من أخذ شبرا من الأرض ظلما، فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين »."

(كتاب البيوع، باب تحريم الظلم وغصب الأرض وغيرها، رقم الحديث: ١٦١٠، ط: دار الطباعة العامرة - تركيا)

ترجمہ:حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ایک بالشت برابر زمین ظلم سے لے لے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کو سات زمینوں کا طوق پہنا دے گا۔"

مشکاۃالمصابیح میں ہے: 

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ’’من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة‘‘ . رواه ابن ماجه."

(باب الوصایا، الفصل الثالث، ج:1، ص:266، ط: قدیمی)

ترجمہ:حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا‘‘۔

البحر الرائق میں ہے:

"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(كتاب الحدود، فصل في التعزير، ج:5، ص:44، ط: دار الكتب الاسلامي)

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:

"(المادة 1073) تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم. فلذلك إذا شرط لأحد الشركاء حصة أكثر من حصته من لبن الحيوان المشترك أو نتاجه لا يصح."

(الكتاب العاشر: الشركات، الباب الأول في بيان شركة الملك، ‌‌الفصل الثاني: في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة، ص:206، ط:نور محمد)

فتاوی رحیمیہ  میں ہے:

"جس وقت ترکہ تقسیم کیا جائے اس وقت کی قیمت کا اعتبار ہوگا،یہ حقوق العباد کا معاملہ ہے، اس میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔"

(کتاب المیراث ،  ج: 10 ،ص: 283، ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144608101999

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں