میر ی اہلیہ کا انتقال ہو گیا، اور میراث میں دو بالیاں، اور دو ہاتھ میں پہننے والے کڑے چھوڑے تھے، جن کا وزن تقریبا 4 تولہ تھا، میں نے بعض مجبوریوں کی وجہ سے دو بالیاں اور ایک کڑا بیچا، بعض مسجد میں صدقہ کیا، بعض سے گھر کے ضروری کام کروائے، کیونکہ میری اولاد میری ضروریات کا خیال نہیں کرتی، اب پوچھنا یہ ہے کہ باقی ایک کڑا ،جس کا وزن تقریبا ایک تولے سے کم ہے، ورثاء میں کیسے تقسیم ہو گا؟جو میں نے خرچ کیا ، اس کا کیا حکم ہے؟ورثاء میں شوہر، ایک بیٹی، پانچ بیٹے، ان پانچ بیٹوں میں ایک بیٹا دیوانہ ہے، بیوی کے والدین کا انتقال ان کی حیات میں ہو گیا تھا۔
واضح رہے کہ کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کے ترکہ میں اس کے تمام ورثاء اپنے اپنے شرعی حصوں کے تناسب سے حق دار ہوتے ہیں اور کسی ایک وارث کے لیے جائز نہیں کہ وہ دوسرے وارث کے حصے کو اس کی رضامندی کے بغیر اپنے ذاتی استعمال میں لائے۔
صورتِ مسئولہ میں سائل کے مرحومہ بیوی کے ترکہ میں ان کے ورثاء اپنے اپنے شرعی حصوں کے اعتبار سے حق دار ہیں ، لہذا سائل نے جو مال خرچ کیا ہے،اس میں تمام ورثاء کا شرعی حصہ بنتا ہے، جس کا لوٹانا سائل پر لازم ہے، اسی طرح جو مال مسجد میں دیا ہے، وہ صرف سائل کی طرف سے شمار ہوگا، باقی ورثاء کی طرف سے نہیں ہوگا، لہذا اس کا واپس کرنا بھی سائل کے ذمہ لازم ہو گا۔
اسی طرح اگر سائل کے بیٹے اس کی ضروریات کا خیال نہیں کرتے اور خود سائل کے پاس بھی مال نہیں ہے ، تو اس صورت میں باپ کو اولاد کے مال سے بقدر ضرورت بلا اجازت لینا جائز ہے۔
دیوانہ بیٹا بھی دیگر ورثاء کی طرح میراث میں شریک ہے، اور اس کا مال والد کے پاس ہو گا، جس سے وہ ضرورت کے بقدر اس پر خرچ کر ے گا۔
سائل کی بیوی کی میراث کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحومہ کے حقوقِ متقدمہ یعنی ، اگر مرحومہ کے ذمہ کوئی قرض ہو تو کل مال سے ادا کرنے کے بعد،اور مرحومہ نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال کے ایک تہائی حصہ میں سے اسے نا فذ کرنے کے بعد باقی تمام ترکہ منقولہ و غیر منقولہ کو44حصوں میں تقسیم کر کے مرحومہ کے شوہر کو 11حصے، مرحومہ کے ہر ایک بیٹے کو6حصے اور بیٹی کو3حصے ملیں گے۔
صورت تقسیم یہ ہے:
میت(بیوی) 4/ 44
شوہر | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی |
1 | 3 | |||||
11 | 6 | 6 | 6 | 6 | 6 | 3 |
یعنی سو فیصد میں سے 25 فیصد مرحومہ کے شوہر کو، 13.63فیصد مرحومہ کے ہر ایک بیٹے کو،6.81فیصد مرحومہ کی ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ’’ألا لاتظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه ‘‘. رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى."
ترجمہ:’’خبردار کسی پر ظلم و زیادتی نہ کرو، خبردار کسی آدمی کی ملکیت کی کوئی چیز اس کی دلی رضامندی کے بغیر لینا حلال اور جائز نہیں ہے ۔‘‘
( باب الغصب والعاریة، الفصل الثانی، ج:2، ص:889، ط:المكتب الإسلامي)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وروي عن جابر بن عبد الله - رضي الله عنه - أن "رجلًا جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه أبوه، فقال: يا رسول الله إن لي مالًا، وإن لي أبًا وله مال، وإن أبي يريد أن يأخذ مالي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أنت ومالك لأبيك"، أضاف مال الابن إلى الأب؛ فاللام للتمليك، وظاهره يقتضي أن يكون للأب في مال ابنه حقيقة الملك، فإن لم تثبت الحقيقة فلاأقل من أن يثبت له حق التمليك عند الحاجة."
(کتاب النفقة، ج:4، ص:30، ط: دار الکتب العلمیه)
شرح المجلۃ لسلیم رستم باز میں ہے:
"لايجوز لأحد أن يتصرف في ملك غيره بلا إذنه أو وكالة أو ولاية و إن فعل كا ضامنًا."
(ج:1، ص:61، رقم المادۃ:96،ط :حبیبیہ کوئٹه)
فتاوی شامی میں ہے:
"وولیه أبوہ ثم وصي الأب ثم الجد أبو الأب ثم وصیه ثم الوالي أو القاضي أووصي القاضي."
(کتاب المأذون، مبحث في تصرف الصبي و من له الولایة، 174/6، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602101764
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن