اگر ایک شخص یہاں سعودیہ میں وتر کی دو رکعت نماز مسجد میں ادا کرے اور ایک رکعت کیسی عذر کے پیش ہونے کی وجہ سے بعد میں گھر پر ادا کرے تو اس کے وتر ادا ہوجائیں گے؟
صورتِ مسئولہ میں وتر کی دو رکعت نماز امام کے ساتھ اور ایک رکعت بعد میں گھر آکر ادا کرنے سے وتر ادا نہیں ہوں گے، بلکہ دوبارہ تین رکعت ایک سلام کے ساتھ ادا کرنا ضروری ہوگا۔
نیز واضح رہے کہ حنفی مسلک میں وتر کی نماز تین رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے؛ اس لیے حنفی کے لیے دو سلام کے ساتھ وتر پڑھنا درست نہیں ہے،حنفی حضرات کو چاہیے کہ وہ حرمین میں تراویح تو ان کے امام کی اقتدا ہی میں ادا کریں، لیکن وتر کی نماز میں ان کے ساتھ شامل نہ ہوں، بلکہ اپنی علیحدہ اجتماعی یا انفرادی پڑھ لیں ، اور اگر ان کے ساتھ ادا کرلی ہو تو اس کا اعادہ کرلیں۔
"فظهر بهذا أن المذهب الصحيح صحة الاقتداء بالشافعي في الوتر إن لم يسلم على رأس الركعتين وعدمها إن سلم. والله الموفق للصواب". (البحر الرائق، 2/40، باب الوتر والنوافل، ط: سعید)فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109202707
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن