بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

وتر میں دعا قنوت کے لیے ہاتھ اٹھانے کا حکم


سوال

وتر میں رفع یدین نہیں کیا ،آیا یہ سنت ہے یا واجب ؟

جواب

وتر میں دعائے قنوت سے پہلے تکبیر کہنااور اس کے لیے ہاتھ اٹھانا دونوں مستقل سنتیں ہے، اگر کسی سے یہ چھوٹ جائیں تو اس کی نماز ہوجائے گی، سجدہ سہو کی ضرورت نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) قراءة (قنوت الوتر) وهو مطلق الدعاء وكذا تكبير قنوته (قوله وكذا تكبير قنوته) أي الوتر.قال في البحر في باب سجود السهو: ومما ألحق به: أي بالقنوت تكبيره؛ وجزم الزيلعي بوجوب السجود بتركه: وذكر في الظهيرية أنه لو تركه لا رواية فيه، وقيل يجب السجود اعتبارا بتكبيرات العيد، وقيل لا. اهـ. وينبغي ترجيح عدم الوجوب لأنه الأصل، ولا دليل عليه، بخلاف تكبيرات العيد ا هـ ۔"

(کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ج:1، ص:468،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(ويكبر قبل ركوع ثالثته ‌رافعا ‌يديه) كما مر ثم يعتمد، وقيل كالداعي.(وقنت فيه)(قوله ويكبر) أي وجوبا وفيه قولان كما مر في الواجبات، وقدمنا هناك عن البحر أنه ينبغي ترجيح عدمه.(قوله ‌رافعا ‌يديه) أي سنة إلى حذاء أذنيه كتكبيرة الإحرام، وهذا كما في الإمداد عن مجمع الروايات لو في الوقت، أما في القضاء عند الناس فلا يرفع حتى لا يطلع أحد على تقصيره. اهـ."

(کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، ج:2،ص:6،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601100431

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں