میرے والد صاحب نے کچھ رقم بینک میں جمع کرائی تھی جس پر بینک انہیں نفع یعنی سود دیتا تھا، اور وہی نفع کی رقم اکثر میرے والد صاحب بینک میں دوبارہ جمع کروادیا کرتے تھے ۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے ، اور ہمیں اصل رقم اور نفع کی رقم کا معلوم نہیں کہ کتنی ہے!کیا اب وہ تمام رقم جو بینک میں موجود ہے وہ اولاد کے لیے حلال ہے ؟
بینک سے حاصل شدہ نفع سود ہونے کی بناء پر حرام ہے ،اور اگر کسی شخص نے سیونگ اکاؤنٹ کھلوارکھا ہو جس پر سود ملتا رہتا ہو،اور وہ حاصل ہونے والا سود دوبارہ اسی اکاؤنٹ میں جمع کروادیا جاتا ہو تو ایسے شخص کے انتقال کے بعد ورثاء کے لیے صرف اصل رقم جو مرحوم نے جمع کروائی تھی ، اس کا حاصل کرنا جائز ہوگا، جب کہ سودی رقم کا لینا اور استعمال کرناجائز نہیں ہوگا۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد مرحوم جو سودی رقم دوبارہ اکاؤنٹ میں جمع کروادیا کرتے تھے ، تو اب ورثاء کے لیے اس تمام رقم یعنی سودی نفع کی رقم اور اس سے حاصل ہونے والی مزید سودی رقم کا لینا جائز نہیں ہے ، بلکہ صرف اصل رقم جو مرحوم نے جمع کروائی تھی اسی رقم کا حاصل کرنا اور ورثاء کے درمیان تقسیم کرنا جائز ہوگا۔اصل رقم کے تعین کے لیے بینک کے عملہ سے معلومات حاصل کرلی جائیں اور ان کے موافق مرحوم کی اصل رقم وصول کرلی جائے اور سودی رقم وصول نہ کی جائے، متعلقہ بینک سے رجوع کر کے بینک اسٹیٹمنٹ نکلوا کر اصل رقم اور سودی رقم کی معلومات ممکن ہے، اور اگر بینک انتظامیہ اس سلسلہ میں تعاون یا معلومات فراہم نہ کرے تو ورثاء اصل رقم کا تعین غالب گمان کے مطابق کرکے صرف اصل رقم وصول کرلیں۔اور اگر سودی رقم اکاؤنٹ میں آگئی ہو اور اس کے لیے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو یہ رقم لے کریہ سودی تمام رقم بلانیت ثواب غرباء اور فقراء میں صدقہ کردیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي حظر الأشباه: الحرمة تتعدد مع العلم بها إلا في حق الوارث، وقيده في الظهيرية بأن لا يعلم أرباب الأموال، وسنحققه ثمة ۔وفي الرد (قوله وسنحققه ثمة) أي في كتاب الحظر والإباحة. قال هناك بعد ذكره ما هنا لكن في المجتبى: مات وكسبه حرام فالميراث حلال، ثم رمز وقال: لا نأخذ بهذه الرواية، وهو حرام مطلقا على الورثة فتنبه. اهـ. ح، ومفاده الحرمة وإن لم يعلم أربابه وينبغي تقييده بما إذا كان عين الحرام ليوافق ما نقلناه، إذ لو اختلط بحيث لا يتميز يملكه ملكا خبيثا، لكن لا يحل له التصرف فيه ما لم يؤد بدله كما حققناه قبيل باب زكاة المال فتأمل."
(کتاب البیوع ،باب البیع الفاسد،ج:5،ص:99،ط:سعید)
وفیہ ایضاً:
"ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه."
(كتاب الحظر والاباحة، ج:6، ص:385، ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101136
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن