میرے والد صاحب کا انتقال ہوا، ورثاء میں: بیوہ، تین بیٹے، پانچ بیٹیاں ہیں، والدصاحب کے والدین پہلے ہی وفات پاچکے ہیں،ہم والد صاحب کے گھر میں رہتے ہیں،میں ایک بیمار شخص ہوں اور میں نے ہر بُرے وقت میں بھائی بہنوں کا ساتھ دیاہے،اب میرا چھوٹا بھائی ہر وقت مجھ سے جھگڑتارہتا ہے اور وہ مجھے اس گھر سے نکالنا چاہتاہے،والدہ اور کچھ بھائی بہن بھی اس کا ساتھ دے رہے ہیں،میرے پاس رہنے کی کوئی جگہ بھی نہیں ہےاور نہ اتنے وسائل ہیں کہ میں کرایہ دے سکوں، آیا مجھے وراثت میں حصہ ملے گا؟یانہیں ؟ وہ مجھے گھر سے نکال سکتے ہیں۔
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ ً یہ مرحوم والد کا گھر ہے،تواس میں تمام ورثاء کا حق ہے،مرحوم کی تمام جائیداد کوتمام ورثاء میں شرعی طریقے کے مطابق تقسیم کیا جائےگا، کسی وارث کا کسی کو محروم کرنا نا جائز اور گناہ ہے، عنداللہ اس کا مؤاخذہ ہوگا، مرحوم کی جائیداد تقسیم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحو م والد کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیزوتکفین کاخرچہ نکالنے کے بعد،اگر مرحوم پر کوئی قرضہ ہے تو اس کو کل مال سے ادا کرنے کے بعد،اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہے تو اس کو ایک تہائی ترکہ سے نافذ کرنے کے بعد،باقی کل مال کو 88 حصوں میں تقسیم کرکے گیارہ حصے بیوہ کو،چودہ حصے ہر ایک بیٹے کو،سات حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔
صورت تقسیم یہ ہے:
مرحوم والد:8/ 88
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
1 | 7 | |||||||
11 | 14 | 14 | 14 | 7 | 7 | 7 | 7 | 7 |
یعنی فیصد کےاعتبار سے بیوہ کو 12.5،ہرایک بیٹے کو 15.9ہر ایک بیٹی کو 7.95 فیصد ملیں گے۔
مشکاۃالمصابیح میں ہے:
"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه."
(باب الوصايا، ج: 2،ص: 926، رقم: 3078، ط: دار الكتب الاسلامية)
ترجمہ:
’’حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا(یعنی اسے جنت سے محروم کردے گا)۔‘‘
شرح المشكاةلطيبي الكاشف عن حقائق السنن ميں ہے:
"عن أنس رضي الله عنه: قوله: ((ميراثه من الجنة)) ((غب)): الوراثة انتقال قنية إليك عن غيرك من غير عقد، ولا ما يجري مجراه، وسمي بذلك المنتقل عن الميت، ويقال لكل من حصل له شيء من غير تعب: وقد ورث كذا. ويقال لمن خول شيئاً مهنأ: أورث. قال تعالي: {تِلْكَ الجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا}.أقول: وتخصيص ذكر يوم القيامة وقطعه ميراث الجنة؛ للدلالة علي مزيد الخيبة والخسرة، ووجه المناسبة أن الوارث كما انتظر وترقب وصول الميراث من مورثہ فخاب في العاقبة لقطعه، كذلك يخيب الله تعالي آماله عند الوصول إليها والفوز بها."
(كتاب الفرائض، ج: 7، ص: 2255، رقم: 3578، ط: نزار مصطفي الباز)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وكل) من شركاء الملك (أجنبي) في الامتناع عن تصرف مضر (في مال صاحبه) لعدم تضمنها الوكالة (فصح له بيع حصته ولو من غير شريكه بلا إذن إلا في صورة الخلط) لماليهما بفعلهما كحنطة بشعير وكبناء وشجر وزرع مشترك قهستاني، وتمامه في الفصل الثلاثين من العمادية."
(كتاب الشركة، ج: 4، ص: 300، ط: دارالفكر بيروت)
شرح المجلةميں ہے:
"ليس لاحد أن يّاخذمال غيره بلا سبب شرعي."
(ج: 1، ص: 62، المقالةالثانيةفي بيان القواعد الفقهية، ط: حنفيةبيروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144602102644
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن