بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بھائی کے میراث میں شامل ہونے کے خوف سے بیوی اور بیٹے کے لیے وصیت کرنے کا حکم


سوال

میرا ایک حقیقی بھائی اور ایک سوتیلا بھائی زندہ ہے جبکہ  دو سوتیلے بھائیوں کا انتقال ہوا ہے ،میری ذاتی ملکیت میں ایک مکان ہے، کیا میں یہ وصیت کر سکتا ہو ں، کہ یہ مکان میرے مرنے کے بعد میری بیوی  ،بیٹےاور  چار بیٹیوں کو ملے  ،بھائیوں اور بھتیجوں کو نہ ملے ؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کے انتقال کے وقت اگر اس کے بیٹے حیات ہوں تو پھر سائل کے بھائی اور بھتیجےشرعاًاس کےوارث نہ ہوں گے،لہذامذکورہ وصیت  کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر اس کا کوئی بھی بیٹا حیات نہ ہو تو صرف اس کے بھائی وارث ہوں گے، بھتیجے وارث نہ ہوں گے اس صورت میں ایسی وصیت  کرناشرعاًدرست  نہیں ہوگا،جس میں کسی وارث کو محروم کرنا مقصود ہو۔

الإختيار لتعليل المختار     میں ہے :

"وفي رواية: «‌لا ‌وصية ‌لوارث إلا أن تجيزها الورثة»، ولأنه حيف في الوصية لما مر، ولأنه تعلق به حق الجميع على ما بينا، فإذا خص به البعض يتأذى الباقي."

(كتاب الوصايا، 63/5، العلمية - بيروت)

  مشکاۃ المصابیح میں ہے :

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة»، رواه ابن ماجه."

(باب الوصایا، الفصل الثالث، ج: 2، ص: 926،ط: المكتب الإسلامي بيروت)

 ترجمہ:"حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا(یعنی اسے جنت سے محروم کردے گا)۔

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144607100951

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں