میرا ایک حقیقی بھائی اور ایک سوتیلا بھائی زندہ ہے جبکہ دو سوتیلے بھائیوں کا انتقال ہوا ہے ،میری ذاتی ملکیت میں ایک مکان ہے، کیا میں یہ وصیت کر سکتا ہو ں، کہ یہ مکان میرے مرنے کے بعد میری بیوی ،بیٹےاور چار بیٹیوں کو ملے ،بھائیوں اور بھتیجوں کو نہ ملے ؟
صورت مسئولہ میں سائل کے انتقال کے وقت اگر اس کے بیٹے حیات ہوں تو پھر سائل کے بھائی اور بھتیجےشرعاًاس کےوارث نہ ہوں گے،لہذامذکورہ وصیت کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر اس کا کوئی بھی بیٹا حیات نہ ہو تو صرف اس کے بھائی وارث ہوں گے، بھتیجے وارث نہ ہوں گے اس صورت میں ایسی وصیت کرناشرعاًدرست نہیں ہوگا،جس میں کسی وارث کو محروم کرنا مقصود ہو۔
الإختيار لتعليل المختار میں ہے :
"وفي رواية: «لا وصية لوارث إلا أن تجيزها الورثة»، ولأنه حيف في الوصية لما مر، ولأنه تعلق به حق الجميع على ما بينا، فإذا خص به البعض يتأذى الباقي."
(كتاب الوصايا، 63/5، العلمية - بيروت)
مشکاۃ المصابیح میں ہے :
"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة»، رواه ابن ماجه."
(باب الوصایا، الفصل الثالث، ج: 2، ص: 926،ط: المكتب الإسلامي بيروت)
ترجمہ:"حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا(یعنی اسے جنت سے محروم کردے گا)۔
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144607100951
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن