بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ورثاء میں جائیداد اور اس کے کراۓ کی تقسیم


سوال

میرے بہنوئی کا دو سال پہلے انتقال ہوا،ان کے ورثاء میں دو بیٹے اور ایک بیوہ ہے،جبکہ ترکہ میں تقریبا9فلیٹ ہیں،اب میری بہن چاہتی ہیں کہ ان فلیٹوں کا جو کرایہ آتا ہےوہ شریعت کے مطابق  ان  ورثاء کے درمیان تقسیم ہو،اور ان کے (بہن) کے انتقال کے بعد مذکورہ جائیدادیں بھی شریعت کے مطابق تقسیم ہوں،اب شریعت کے مطابق ہر ایک کا کتنا حصہ بنتا ہے کرایہ میں اور اسی طرح جائیداد میں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں مرحوم کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیزوتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ کسی کا قر ض ہو، تو اس کو باقی ترکہ سے ادا کرنے کے بعد،اور اگر مرحوم نے کوئی        جائز      وصیت کی ہو تو اس کو ایک تہا ئی ترکہ سے نافذ کرنےکے بعد  باقی کل  ترکہ کو 16 حصوں میں تقسیم کرکے ،2حصے مرحوم کی بیوہ کو، 7،7حصے مرحوم کے  ہر ایک بیٹے کو ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:16/8

بیوہبیٹابیٹا
17
277

یعنی فیصد کے اعتبار سے12.5 فیصد مرحوم کی بیوہ کو،43.75 فیصد مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو ملے گا۔

مذکورہ طریقہ پر جائیداد کو تقسیم کرکے تمام ورثاء کے حوالےہرایک کاحصہ  کردیا جاۓ؛کیونکہ جائیداد میں تمام ورثاء کا حق ہے اور تمام ورثاء اپنے حصے میں خود مختار ہیں، لہذا بغیر دیگر ورثاءکی رضامندی کے ان کے حصوں  کو کرایہ پر دینے اور دیگر تصرفات کا حق کسی وارث کو نہیں ہے،البتہ اگر تمام ورثاءعاقل،بالغ ہوں اورکرایہ پردینے پر راضی ہوں تو مذکورہ تناسب کے اعتبار سے تمام ورثاء کےدرمیان  کرایہ تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

التركة تتعلق بها حقوق أربعة: جهاز الميت ودفنه والدين والوصية والميراث.

(کتاب الفرائض،ج:6،ص:447،ط:رشيدية)

وفيہ ایضًا:

"ولا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بأمره، وكل واحد منهما كالأجنبي في نصيب صاحبه ويجوز بيع أحدهما نصيبه من شريكه في جميع الصور ومن غير شريكه بغير إذنه إلا في صورة الخلط والاختلاط، كذا في الكافي."

(کتاب الشرکة، الباب الأول في بيان أنواع الشركة، ج:2، ص:301، ط:دار الفکر)

مجلة الاحکام العدلیة میں ہے:

إذا طلب أحد الشريكين القسمة وامتنع الآخر فيقسمه القاضي جبرا إن كان المال المشترك قابلا للقسمة وإلا فلا يقسمه.

(الكتاب العاشرالشرکات،‌‌ الفصل الثاني: في بيان شرائط القسمة، ص:218، ط:نور محمد کارخانة كراتشی)

فقط واللہ اعلم.


فتوی نمبر : 144610100433

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں