میری بہن کو وراثت میں جو گھر ملا، اس میں تھوڑی تعمیراتی کام تھا، ہم نے اس سے کہا کہ ہم یہ کام اپنے پیسوں سے کرواتے ہیں، تم اس کو کرایہ پر دے دو، جب کرایہ ملے گا تو تم اس سے ہمارا قرضہ ادا کردینا، اس نےکوئی لڑائی جھگڑا نہیں کیا، اور بناتے وقت بھی یہ نہیں کہا کہ میں نہیں دوں گی، اور بنانے کے بعد میں نے کہا کہ رقم دو، تو کہا کہ دے دوں گی، لیکن اب لڑائی کسی اور بات پر ہوگئی، تو کہہ رہی ہے کہ میں رقم نہیں دوں گی، تم لوگ اس گھر کو فروخت کرکے اس سے رقم لے لو۔
حضرت ایک بلڈنگ میں آٹھ گھر ہیں، سب الگ ہیں، لیکن پورا گھر والدہ کے نام ہے، اس کو ہم فروخت نہیں کر سکتے ہیں، اور وہ باقاعدہ اس سے ہر ماہ کرایہ لے رہی ہے، لیکن ہماری رقم ٹوٹل:سولہ ہزار روپے دینے کو تیار نہیں ہے، اس سلسلے میں ہماری شرعی راہ نمائی فرمائیں۔
قرض کی ادائیگی کی قدرت ہونے کے باوجود قرض ادا نہ کرنا اور اس میں ٹال مٹول کرنا شرعاً ظلم اور ناجائز ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ:
”قرض کی ادائیگی پر قدرت رکھنے والے کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔“
ایک اور روایت میں ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
” مسلمان کی جان اپنے قرض کی وجہ سے معلق رہتی ہے (یعنی جنت کے دخول سے روک دی جاتی ہے) یہاں تک کہ اس کے قرض کی ادائیگی کردی جائے۔“
لہٰذا مسئولہ صورت میں سائل کی بہن کا اپنے بھائی کے قرض کی رقم واپس کرنے سے باجود قدرت و وسعت کے انکار کرنا یا قرض کی ادائیگی کے لیے بہن کا ایسا حوالہ دینا جس سے سائل اپنا قرض وصول نہ کر سکتا ہو، درج بالا حدیث کی رو سے ظلم و زیادتی ہے، اس سے سائل کی بہن کو بہرحال اجتناب کرنا ضروری ہے، اور اپنے بھائی کا قرض جلد از جلد ادا کرنا لازم ہے، یکمشت ادا کرنا ممکن نہ ہو تو حسبِ معاہدہ جب کرایہ وصول کرے، تو اس میں سے قرض کا بھی کچھ حصہ ادا کرتے رہنا چاہیے۔
الصحیح للبخاری میں ہے:
"عن أبي هريرة رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: مطل الغني ظلم، فإذا أتبع أحدكم على ملي فليتبع."
(كتاب الحوالات، باب في الحوالة، ج:2، ص:799، ط:دار ابن كثير)
سننِ ترمذی میں ہے:
"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نفس المؤمن معلقة بدينه حتى يقضى عنه."
(أبواب الجنائز، باب ما جاء عن النبي صلي الله عليه و سلم أنه قال: نفس المؤمن معلقة بدينه حتي يقضي عنه، ج:2، ص:375، ط:دار الغرب الإسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
"الصلاة لإرضاء الخصوم لا تفيد، بل يصلي لله، فإن لم يعف خصمه أخذ من حسناته جاء أنه يؤخذ لدانق ثواب سبعمائة صلاة بالجماعة....(قوله: الصلاة لإرضاء الخصوم لا تفيد إلخ) لم يتعرض لكون ذلك جائزا، وظاهر مختارات النوازل أن ذلك لا يجوز حيث قال: ينبغي أن لا يفعل ذلك، ولعل ذلك من إلقاء المبطلين اهـ. وفي الولوالجية: إذا صلى لوجه الله تعالى فإن كان له خصم لم يجر بينه وبينه عفو أخذ من حسناته ودفع إليه في الآخرة نوى أو لم ينو....(قوله: جاء) أي في بعض الكتب أشباه عن البزازية، ولعل المراد بها الكتب السماوية أو يكون ذلك حديثا نقله العلماء في كتبهم: والدانق بفتح النون وكسرها: سدس الدرهم، وهو قيراطان، والقيراط خمس شعيرات، ويجمع على دوانق ودوانيق؛ كذا في الأخستري حموي (قوله: ثواب سبعمائة صلاة بالجماعة) أي من الفرائض لأن الجماعة فيها: والذي في المواهب عن القشيري سبعمائة صلاة مقبولة ولم يقيد بالجماعة. قال شارح المواهب: ما حاصله هذا لا ينافي أن الله تعالى يعفو عن الظالم ويدخله الجنة برحمته ط ملخصا."
(كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، ج:1، ص:438، ط:سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144608100058
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن