میری بیوی مجھ سے طلا ق کا مطالبہ کررہی ہےاور کہتی ہےکہ آپ کےاخلاق درست نہیں ہے،اب سوال یہ ہےکہ ان کا مطالبہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟دوسرایہ کہ وہ مجھ سے مہر اور دیگر سامان کا مطالبہ بھی کررہی ہے تو کیا میراان کو طلاق دینے کے بعدمہر وغیرہ دینا ضروری ہے،اور اگر میں ان کو مہر اور دیگر سامان کے عوض خلع دے دوں تو یہ جائز ہے یا نہیں؟
بیوی کا محض شوہر کے اخلاق خراب ہونے کی وجہ سے طلاق کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے،لہذامیاں بیوی غلط فہمیاں دور کرکےگھر بسانے کی کوشش کریں،تاہم اگرنباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے تو طلاق یا خلع دینا جائز ہے،لیکن طلاق دینے کی صورت میں شوہر( سائل )پربیوی کومہر وغیرہ دینا ضروری ہوگا، البتہ اگربیوی خود مہر ودیگر سامان کے بدلے خلع کا مطالبہ کرے اور شوہر (سائل) اس کو قبول کر تے ہوئے خلع دے دے تو خلع درست ہوجائے گا اور شوہر پر مہر وغیرہ کی ادائیگی لازم نہیں ہوگی، لیکن یہ اس صورت میں ہے جب زیادتی بیوی کی جانب سے ہو، اگر زیادتی شوہر کی جانب سے ہوتوشوہر کا مہر وغیرہ واپس لینامکروہ تحریمی ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: للشقاق) أي لوجود الشقاق وهو الإختلاف والتخاصم. وفي القهستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بين الزوجين إختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما، فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع، وهذا هو الحكم المذكور في الآية."
(کتاب الطلاق، باب الخلع، 441/3، ط: سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ما جاز أن يكون مهرا جاز أن يكون بدلا في الخلع كذا في الهداية."
(كتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع وما في حكمه،1/ 494، ط: المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر )
مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
"(1)جو طلاق کہ مال کے بدلے میں خلع کے عنوان سے دی جائے وہ خلع ہے ،اس کا حکم طلاق بائن کا ہے (2) یعنی زوجین کی مرضی سے تجدید نکاح ہو سکتی ہے بغیر زوجہ کی رضامندی کے اس کو دوبارہ نکاح میں لے آنے کا اختیار زوج کو نہیں رہتا (3) ہاں مہر یا کوئی دوسر امال جو مہر کے مساوی قیمت رکھتا ہو واپس لینا یا بخشوا لینا درست ہےیہ جب کہ تعدی اور زیادتی زوجہ کی جانب سے ہو، ورنہ اتنا بھی لینا مکروہ تحریمی ہے ۔"
( کفایت المفتی ،کتاب الطلاق،169/6، ط: دارا لاشاعت )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603100064
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن