بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا اپنی بیوی کو تین الگ الگ معلق طلاقیں دینے کا حکم


سوال

سوال یہ ہے کہ میری ماموں کی بیٹی شادی کے بعد اپنے میکے آئی تھی، تو اس کے  شوہر نے اپنے بھانجے کو بھیجا کہ میری بیوی کو میرے گھر لے آؤ، بھانجا اس کی بیوی اور اس کی ساس کو لے کر آرہاتھا  کہ لڑکے نے اپنے بھانجے کو فون کرکے کہا کہ  : "تم اس کو کیوں میرے گھر لارہے ہو؟  میں نے تو اس کو طلاق دے دی ہے"، بھانجے نے اس کو ڈانٹا اور فون اس کی بیوی کو دیا، لڑکے نے اپنی بیوی کو کہا کہ: "تم کیوں آرہی ہو؟ میں نے تمہیں طلاق دے دی ہے"، اس کے بعد لڑکی کی والدہ نے فون پر اس سے بات کی تو اس کو  بھی یہی جواب دیا کہ: "اپنی بیٹی کو اپنے گھر پر رکھو ، میں نے اس کو  طلاق دے دی"، پھر جب لڑکی کی والدہ لڑکی کواپنے گھر لے  آئیں، تو پھر  لڑکی نے کہا کہ یہ باتیں تو میرے شوہر مجھے کئی بار کہہ چکے ہیں، لیکن میں یہ باتیں چھپاتی تھی، مثلاً: آٹھ   مہینےپہلے کی بات ہے، ایک مرتبہ شوہر نے مجھے کہا کہ:"اگرمیں نے دوبارہ چرس کا استعمال کیا تو تو مجھ پر ماں بہن جیسے ہوگی"، وہ چوں کہ چرسی ہے،تواس وعدہ کے بعد  اس نےکئی دفعہ   چرس  کا استعمال کیاہے، پھر  اس کے بعد غالبًا دس دن گزرے تھے کہ  اس نے  مجھے مارا پیٹااور یہ کہا کہ: " اگر میں نے تمہیں دوبارہ مارا تو تو مجھ پر طلاق ہے"اور اگلے دن  اس نے دوبارہ  مارا،پھر  دو دن بعد میں لکڑی لانے کے لیے جارہی تھی جیسے کہ گاؤں کے اکثر عورتیں پہاڑوں سےلکڑیاں  لاتی ہیں تو اس نے مجھے کہا کہ: "اگرتو  لکڑی لانے کے لیےگئی تو تو مجھ پر طلاق ہے"  اس کےایک گھنٹہ  بعد میں لکڑی لانے کے لیے گئی، اور  کئی دفعہ ضرورت کی وجہ سے  گئی ہوں۔

اب شوہر سسرال والوں کو فون کرتا ہےکہ میری بیوی کو میرے گھر لے آؤ، تو پوچھنا یہ تھا کہ کیا ان الفاظ سے لڑکے کی طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟ اور کتنی طلاقیں واقع ہوئیں ہیں، کیا دوبارہ نکاح کی گنجائش ہوگی؟شریعت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

وضاحت: 

آٹھ مہینے پہلے جوطلاقیں دی ہیں اس کے بعد دونوں میاں بیوی ایک ساتھ رہے ہیں، پھر اب آٹھ مہینوں کے بعد  جب اس کی بیوی اپنے میکے آئی تھی تو طلاق کا یہ دوسرا مسئلہ پیش آیا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب شوہر نے  اپنی بیوی کو  کہا کہ: "اگرمیں نے دوبارہ چرس کا استعمال کیا تو تو مجھ پر ماں بہن جیسے ہوگی" ان الفاظ سے شوہر کی نیت کو دیکھا جائے گا، اگر ان الفاظ سے اس کی نیت طلاق دینے کی تھی تو ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی، اور اگر اس کی نیت طلاق کے علاوہ کوئی اور تھی تو اسی  کے مطابق  فیصلہ کیا جائے گا،اور اگر اس کی کوئی نیت نہیں تھی تو کچھ بھی نہیں ہوا، پھر دوسری مرتبہ جب اس نے اپنی بیوی کو مارا پیٹااور یہ کہا کہ: " اگر میں نے تمہیں دوبارہ مارا تو تو مجھ پر طلاق ہے"تو ان الفاظ کہنے سے طلاق معلق ہوگئی تھی لیکن اگلے دن جب  اس نے دوبارہ  ماراتو  وہ معلق طلاق  واقع ہوگئی ، پھر تیسری مرتبہ جب شوہر نے اپنی بیوی کو یہ کہا کہ: "اگرتو  لکڑی لانے کے لیےگئی تو تو مجھ پر طلاق ہے" لیکن اس کے ایک گھنٹہ بعد اس کی بیوی لکڑی لانے کے لیے گئی تھی تو ایسی صورت میں  دوسری معلق طلاق بھی واقع ہوگئی تھی، یعنی اس وقت مجموعی اعتبار اس کی بیوی پر دو طلاقیں واقع ہوگئی تھیں(یہ تفصیل اس وقت ہے کہ جب پہلے والی طلاق کو شمار نہ کیاجائے، کہ جس میں اس کی نیت کا اعتبار تھا)، اور ایک طلاق کا اختیار اس کے پاس رہتا تھا، اور دونوں ساتھ رہتے رہے جس سے رجوع ہوگیا تھا، اس کے آٹھ ماہ بعد اپنے بھانجے کو فون پریہ  کہا کہ:  "تم اس کو کیوں میرے گھر لارہے ہو؟  میں نے  تو اس کو طلاق دے دی ہے"  تو یہ الفاظ کہنے سے تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی، اور شوہر پر اس کی بیوی  حرمتِ مغلّظہ کے ساتھ حرام ہوگئی، اب رجوع یا دوبارہ نکاح کرنے کی گنجائش نہیں ہے، لہذا عورت عدت (مکمل تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اور اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے: 

"ولو قال: أنت علي كأمي أو مثل أمي يرجع إلى نيته فإن نوى به الظهار كان مظاهرا، وإن نوى به الكرامة كان كرامة، وإن نوى به الطلاق كان طلاقا، وإن نوى به اليمين كان إيلاء؛ لأن اللفظ يحتمل كل ذلك."

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، كتاب الظهار، فصل في شرط ركن الظهار، (3/ 231 - 232)، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی عالمگیری میں ہے: 

"ولو قال لها: أنت مثل أمي أو كأمي ينوي فإن نوى الطلاق وقع بائنا وإن نوى الكرامة أو الظهار فكما نوى هكذا في فتح القدير وإن لم تكن له نية فعلى قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - لا يلزمه شيء حملا للفظ على معنى الكرامة كذا في الجامع الصغير والصحيح قوله هكذا في غاية البيان."

(الفتاوى العالمكيرية، كتاب الطلاق، باب الظهار، (1/ 507)، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے: 

"(‌وإن ‌نوى ‌بأنت علي مثل أمي) ، أو كأمي، وكذا لو حذف علي خانية (برا، أو ظهارا، أو طلاقا صحت نيته) ووقع ما نواه لأنه كناية (وإلا) ينو شيئا، أو حذف الكاف (لغا) وتعين الأدنى أي البر، يعني الكرامة."

(حاشية ابن عابدين، كتاب الطلاق، باب الظهار،  (3/ 470)، ط: سعيد)

وفیہ ایضا:

"وإذا ‌لحق ‌الصريح البائن كان بائنا لأن البينونة السابقة عليه تمنع الرجعة كما في الخلاصة."

(حاشية ابن عابدين، كتاب الطلاق، باب الكنايات، (3/ 306)، ط: سعيد)

وفیہ ایضا: 

"(شرطه الملك) حقيقة كقوله لقنه: إن فعلت كذا فأنت حر أو حكما، ولو حكما (كقوله لمنكوحته) أو معتدته (إن ذهبت فأنت طالق) (، أو الإضافة إليه) أي الملك الحقيقي عاما أو خاصا، كإن ملكت عبدا أو إن ملكتك لمعين فكذا أو الحكمي كذلك (كإن) نكحت امرأة أو إن (نكحتك فأنت طالق)."

(حاشية ابن عابدين، كتاب الطلاق، باب التعليق، (3/ 344)، ط: سعيد)

فتاوی شامی میں ہے: 

"لو أقر بالطلاق هازلا أو كاذبا فقال في البحر، وإن مراده لعدم الوقوع في المشبه به عدمه ديانة، ثم نقل عن البزازية والقنية لو أراد به الخبر عن الماضي كذبا لا يقع ديانة، وإن أشهد قبل ذلك لا يقع قضاء أيضا."

(حاشية ابن عابدين، كتاب الطلاق، باب ركن الطلاق،  (3/ 238)، ط: سعيد)

وفیہ ایضا:

"والصريح يلحق الصريح أن تعليق طلاق المعتدة فيها صحيح في جميع الصور إلا إذا كانت معتدة عن بائن وعلق بائنا كما في البدائع اعتبارا للتعليق بالتنجيز."

(حاشية ابن عابدين، كتاب الطلاق، باب التعليق، (3/ 344)، ط: سعيد)

قرآن مجید میں ہے: 

"ٱلطَّلَاقُ ‌مَرَّتَانِ فَإِمسَاكُۢ بِمَعرُوفٍ أَو تَسرِيحُ بِإِحسَان"(البقرة: 229)

ترجمہ: "وہ طلاق دو مرتبہ ( کی ) ہے پھر خواہ رکھ لینا قاعدہ کے موافق خواہ چھوڑ دینا خوش عنوانی کے ساتھ "۔ (بیان القرآن)

فتاوی عالمگیری میں ہے: 

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية".

(كتاب الطلاق، باب في الرجعة، ج: 1، ص: 506، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے :

"سوال:  زید نے اپنی بیوی کو غصہ کی حالت میں بہ نیت طلاق کہا کہ تو مثل میری لڑکی اور مثل میری بہن کےہے، اس صورت میں کونسی طلاق اس کی زوجہ پر واقع ہوئی، اگر بائن واقع ہوئی تو قبل وضع حمل شوہر اول سے نکاح درست ہے، یا نہیں؟

جواب: اگر ان الفاظ میں زید کی نیت طلاق کی تھی جیسا کہ سوال سے ظاہر ہے تو ایک طلاق بائنہ اس کی زوجہ پر واقع ہوئی، نکاح عدت میں یعنی قبل وضع حمل زید شوہر اول  کا اس سے درست ہے۔ :

"(‌وإن ‌نوى ‌بأنت علي مثل أمي)، أو كأمي، وكذا لو حذف علي خانية (برا، أو ظهارا، أو طلاقا صحت نيته) ووقع ما نواه لأنه كناية (وإلا) ينو شيئا، أو حذف الكاف (لغا) وتعين الأدنى أي البر، يعني الكرامة."

(فتاوی دار العلوم دیوبند،باب دواز دہم، 10 /  202، ط: مکتبۂ دار العلو، دیوبند)

کفایۃ المفتی میں ہے :

"سوال : ایک آدمی نے اپنی عورت کو حالت غصہ میں دومرتبہ اپنی بہن کے برابر ہونے کے الفاظ کہہ دیےہیں یعنی یہ کہا ہے کہ تو میری بہن کے برابر ہے یہ دومرتبہ کہا ہے پھر بعد میں عورت کے رشتہ داروں سے یہ بھی کہا کہ اس عورت کو تم اپنے گھر لے جاؤ، کیوں کہ میں نے اس کو دومرتبہ بہن کے برابر ہونا کہہ دیا ہے تو اب میں رکھنا نہیں چاہتا ہوں، بعد میں گھر میں رہنے دیا ہے اب یہ بتائیں کہ ان دونوں کے نکاح میں فساد ہے کہ نہیں؟ اور فساد ہے تو کس طرح کا؟ یعنی طلاق ہے تورجعی ہے یا طلاق بائن ہے ، یا طلاق مغلظہ یا طلاق نہ ہو تو ظہار ہی ہے یا نہیں؟

جواب: طلاق کی نیت سے یہ الفاظ کہے ہوں تو طلاق بائن ہے اور تجدیدِ نکاح کرنا لازم ہے، حلالہ کی ضرورت نہیں، اور طلاق کی نیت نہ ہو بلکہ عزت میں بہن کے برابر کہا ہو تو کچھ نہیں، ظہار نہیں ہے۔"

(کفایۃ المفتی،کتاب الطلاق،  باب الظہار، 8 / 440، ط: دار الاشاعت، کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101303

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں