بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

یا علی مدد کہنے کا حکم/ کیا غزوہ خیبر کے موقع پر آپﷺ نے حضرت علی کو مدد کے لیے پکارا تھا؟


سوال

 شیعہ یا علی مدد بولتے ہیں،  قران میں ہے اللہ کے علاوہ کسی سے مدد نہ مانگو ، جب کہ  جنگ خیبر میں 39 دن کے بعد 40ویں دن حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت علی کو مدد کے لیے پکارا،  اس حوالےسے آپ کیا فرماتے ہیں؟

جواب

 اللہ کے علاوہ کسی اور سے اس اعتقاد کے ساتھ مدد مانگنا کہ وہ (جس سے مدد مانگی جارہی ہے) ذاتی طور پر  ہر چیز کے کرنے پر قدرت رکھتا ہے، یا یہ اعتقاد رکھنا کہ اللہ نے اسے تمام اختیارات دیے ہوئے ہیں کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے، یہ  دونوں ہی کفر اور شرک ہے، جو کہ ناجائز اور حرام ہے، البتہ اگر کسی غیر سے ظاہری استعانت کے طور پر مدد طلب  کی جائے تو  یہ  جائز ہے، لہذا مذکورہ جملہ ”یا علی مدد “ کہنا جائز نہیں، کیوں کہ اگر اس سے مقصود  حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکار کر ان سے استغاثہ ہو  اور یہ اعتقاد ہو کہ ان کے پاس ہر قسم کے اختیارات ہیں، جو چاہیں جس کی چاہیں مدد کرسکتے ہیں تو  یہ  کفر اور شرک ہے۔ اگر یہ اعتقاد نہ ہو  تب  یہ موہمِ شرک ضرور ہیں، لہذا بہر صورت اس سے بچا جائے۔

باقی جنگِ خیبر کے موقع پر آپﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدد کی لیے نہیں پکارا تھا،بلکہ قلعہ  خیبر  کی مہم کے لیے آپ کی تشکیل فرمائی تھی ، کتبِ سیر وشروحاتِ حدیث میں اس کا کہیں ذکر نہیں، یہ من گھڑت اور غلط بات ہے، بلکہ قصہ اس   طرح ہے کہ:

جب جنگ خیبر میں قلعے فتح ہوتے گئے اور قلعہ ناعم  بھی فتح ہوا، تو اس کے بعد آپ ﷺ نے قلعہ قموص کا رخ کیا،  یہ قلعہ خیبر کے قلعوں میں نہایت مستحکم تھا،  جب اس قلعہ کا محاصر ہ ہوا تو آں حضرت صلی اللہ علیہ درد شقیقہ کی وجہ سے میدان میں تشریف نہ لاسکے ؛ اس لئے نشان دے کر ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ کو بھیجا، با وجود پوری جدوجہد کے قلعہ فتح نہ ہو سکا،  واپس آگئے۔ دوسرے روز فاروق اعظم رضی اللہ عنہ  کو   نشان دے کر روانہ فرمایا ۔ حضرت عمر  رضی اللہ عنہ نے پوری جدو جہد سے قتال کیا،  لیکن بغیر فتح کیے ہوئے واپس آئے، اس روز آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ کل نشان اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول کو محبوب   رکھتا ہو اور اللہ اور اس کا رسول اس کو محبوب رکھتا ہو اور اس کے ہاتھ پر اس کو فتح فرمائے۔ 

ہر شخص منتظر تھا کہ دیکھے یہ سعادت کس کے حصہ میں آتی ہے؟ تمام شب اسی تمنا اور اشتیاق میں گزری،  جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ  کو بلایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کی آنکھیں اس وقت آشوب کی ہوئی تھیں،  بلا کر آنکھوں کو لعابِ دھن لگایا اور دعا پڑھی ۔ فوراً اسی وقت آنکھیں اچھی ہو گئیں گویا کبھی کوئی شکایت پیش ہی نہیں آئی تھی اور نشان مرحمت فرمایا اور نصیحت فرمائی کہ جہاد و قتال سے پہلے ان کو اسلام کی دعوت دینا اور اللہ تعالٰی کے حقوق سے ان کو خبردار کرنا،  خدا کی قسم اگر ایک شخص کو اللہ تعالیٰ تیرے ذریعہ سے ہدایت نصیب فرمائے تو وہ تیری  لیے سرخ اونٹوں سے کہیں بہتر ہے،  حضرت علی رضی اللہ عنہ  نشان لے کر روانہ ہوئے اور قلعہ ان کے ہاتھ پر فتح ہوا۔ (ماخوذ از سیرت مصطفی، ج:2، ص:418، ط: الطاف اینڈ سنز)

تفسیر روح المعانی  میں ہے:

"الثاني: أن الناس قد أكثروا من دعاء غير الله تعالى من الأولياء الأحياء منهم والأموات وغيرهم، مثل يا سيدي فلان أغثني، وليس ذلك من التوسل المباح في شيء، واللائق بحال المؤمن عدم التفوه بذلك وأن لا يحوم حول حماه، وقد عدّه أناس من العلماء شركا وأن لا يكنه، فهو قريب منه ولا أرى أحدا ممن يقول ذلك إلا وهو يعتقد أن المدعو الحي الغائب أو الميت المغيب يعلم الغيب أو يسمع النداء ويقدر بالذات أو بالغير على جلب الخير ودفع الأذى وإلا لما دعاه ولا فتح فاه، وفي ذلك بلاء من ربكم عظيم، فالحزم التجنب عن ذلك وعدم الطلب إلا من الله تعالى القوي الغني الفعال لما يريد."

(سورة المائد، الأية: 35، ج:3، ص:297 - 298، ط: دار الكتب العلمية - بيروت)

فتح الباری میں ہے:

لما كان يوم خيبر أخذ أبو بكر اللواء فرجع ولم يفتح له، فلما كان الغد أخذه عمر فرجع ولم يفتح له، وقتل محمود بن مسلمة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لأدفعن لوائي غدا إلى رجل الحديث، وعند ابن إسحاق نحوه من وجه آخر، وفي الباب عن أكثر من عشرة من الصحابة سردهم الحاكم في الإكليل وأبو نعيم، والبيهقي في الدلائل....لأعطين هذه الراية غدا رجلا بغير شك، وفي حديث بريدة: إني دافع اللواء غدا إلى رجل يحبه الله ورسوله، والراية بمعنى اللواء وهو العلم الذي في الحرب يعرف به موضع صاحب الجيش، وقد يحمله أمير الجيش وقد يدفعه لمقدم العسكر، وقد صرح جماعة من أهل اللغة بترادفهما، لكن روى أحمد، والترمذي من حديث ابن عباس: كانت راية رسول الله صلى الله عليه وسلم سوداء ولواؤه أبيض، ومثله عند الطبراني، عن بريدة، وعند ابن عدي، عن أبي هريرة، وزاد: مكتوبا فيه لا إله إلا الله محمد رسول الله وهو ظاهر في التغاير، فلعل التفرقة بينهما عرفية، وقد ذكر ابن إسحاق وكذا أبو الأسود، عن عروة أن أول ما وجدت الرايات يوم خيبر، وما كانوا يعرفون قبل ذلك إلا الألوية.

قوله: (يحبه الله ورسوله) زاد في حديث سهل بن سعد: ويحب الله ورسوله، وفي رواية ابن إسحاق: ليس بفرار، وفي حديث بريدة: لا يرجع حتى يفتح الله له.

قوله: (فنحن نرجوها) في حديث سهل: فبات الناس يدوكون ليلتهم أيهم يعطاها، وقوله: يدوكون بمهملة مضمومة؛ أي باتوا في اختلاط واختلاف، والدوكة بالكاف الاختلاط. وعند مسلم من حديث أبي هريرة أن عمر قال: ما أحببت الإمارة إلا يومئذ. وفي حديث بريدة: فما منا رجل له منزلة عند رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا وهو يرجو أن يكون ذلك الرجل، حتى تطاولت أنا لها، فدعا عليا وهو يشتكي عينه فمسحها، ثم دفع إليه اللواء، ولمسلم من طريق إياس بن سلمة عن أبيه قال: فأرسلني إلى علي، قال: فجئت به أقوده أرمد، فبزق في عينه فبرأ."

(كتاب المغازي، باب غزوة خيبر، ج:7، ص:477، ط: دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144607102321

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں