بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

یہاں سے چلی جاؤ کہتے وقت اگر طلاق کی نیت نہ ہو


سوال

میری شادی سن 2002 میں ہوئی، اور میں نے حق مہر بھی ادا کیا تھا۔ ہمارا گزارا صحیح چل رہا تھا، لیکن 23 سال تک اولاد نہ ہونے کی وجہ سے وقتاً فوقتاً جھگڑے ہوتے رہے۔ایک مرتبہ جھگڑے کے دوران میں نے اپنی بیوی سے کہا: "میں تمہیں طلاق دے دوں گا"۔اس کے دو یا تین سال بعد ایک اور جھگڑے کے موقع پر غصے میں میں نے کہا: ’’ختم، یہاں سے چلی جاؤ‘‘ اور دو یا تین تھپڑ بھی مارے۔اس سے تقریباً ایک سال یا کچھ عرصہ پہلے میں نے ان سے کہا تھا:’’مجھے تمہیں بہت پہلے چھوڑ دینا چاہیے تھا‘‘۔اب میرا سوال یہ ہے کہ:کیا ان تمام باتوں سے ہمارا نکاح ختم ہو گیا ہے؟

وضاحت: جب میں نے یہ کہا کہ ’’یہاں سے چلی جاؤ‘‘، اس وقت میری نیت طلاق دینے کی ہرگز نہیں تھی۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعی سائل کا بیان درست ہے کہ اُس نے اپنی بیوی سے یہ کہتے وقت کہ ’’ ختم یہاں سے چلی جاؤ‘‘ طلاق دینے کی نیت نہیں کی تھی، تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اسی طرح، ایک سال قبل جب اُس نے کہا تھا کہ ’’میں تمہیں طلاق دے دوں گا‘‘، تو اس سے بھی طلاق واقع نہیں ہوئی، کیونکہ یہ الفاظ طلاق کی دھمکی کے ہیں، طلاق نہیں، اور شرعاً آئندہ مستقبل میں طلاق دینے کی دھمکی سے طلاق واقع نہیں ہوتی تاہم شوہر کو چاہیے کہ آئندہ کے لیے اس قسم کے الفاظ ادا نہ کرے۔

الدر مع الرد میں ہے :

"(فنحو اخرجي واذهبي وقومي) تقنعي تخمري استتري انتقلي انطلقي اغربي اعزبي من الغربة أو من العزوبة (يحتمل ردا...وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا.

(قوله توقف الأولان) أي ما يصلح ردا وجوابا وما يصلح سبا وجوابا ولا يتوقف ما يتعين للجواب. بيان ذلك أن حالة الغضب تصلح للرد والتبعيد والسب والشتم كما تصلح للطلاق، وألفاظ الأولين يحتملان ذلك أيضا فصار الحال في نفسه محتملا للطلاق وغيره، فإذا عنى به غيره فقد نوى ما يحتمله كلامه ولا يكذبه الظاهر فيصدق في القضاء، بخلاف ألفاظ الأخير".

(‌‌‌‌كتاب الطلاق،باب الكنايات،ج:3،ص:298/301،ط :سعید)

البحرالرائق میں ہے:

" وليس منه أطلقك بصيغة المضارع".

(کتاب الطلاق ، باب الفاظ الطلاق ،ج:3،ص:271،ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144610100740

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں