ایک خاتون کی شادی 2005 میں ہوئی، ان کا شوہر ان کے ساتھ مسلسل ظلم ویادتی کرتا رہا،اور ان سے دو بچے بھی ہیں، پھر 2018 میں ان کے شوہر نشہ وغیرہ کے عادی ہوگئے اور غائب ہوگئے،تاحال ان کا کوئی علم نہیں۔پھر خاتون نے 2022-11-29کو کورٹ میں خلع کی درخواست دائر کی اور اس کا فیصلہ 2023-1-31کو موصول ہوا ۔
واضح رہے کہ خاتون نے عدالت سے حق مہر کی معافی کے عوض اپنا خلع لیا مع دو بچوں کے۔
لہٰذا درج ذیل سوالوں کے جواب مطلوب ہیں ۔
1:جو خلع ہم نے لیا وہ شرعی خلع ہوگا یا نہیں؟؟
2:خلع لینے کے دو ماہ بعد اس عورت نے 30-3-2023 کو نکاح کیا ، یہ نکاح درست ہے یا نہیں؟؟
خلع مالی معاملات کی طرح ایک معاملہ ہے، جس طرح دیگر مالی معاملات میں جانبین کے درمیان باہمی رضا مندی ضروری ہے ،اسی طرح خلع میں بھی میاں بیوی دونوں کی رضا مندی ضروری ہے۔اور جس طرح شریعت میں طلاق کا حق شوہر کو حاصل ہے اسی طرح عورت کی جانب سے خلع کے مطالبے کو قبول کرنا نہ کرنا بھی شوہر کا حق ہے، اور خلع کا حکم ثابت ہونے کےلئے شوہر کی رضا مندی ضروری ہے۔
صورتِ مسئولہ میں منسلکہ عدالتی کاغذات سے معلوم ہوتاہےکہ عدالت نےعورت کے دعوی خلع کومدنظررکھتےہوئےیک طرفہ خلع کی ڈگری جاری کی ہے، شوہر کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے نہ اس کی جانب سے خلع کی اجازت اور رضامندی ہے اور نہ ہی اس کے دستخط ہو سکے ہیں لہذا مذکورہ یکطرفہ ڈگری سے نکاح ختم نہیں ہوا،اور مذکورہ عورت کا دوسری جگہ نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔
البتہ چونکہ مذکورہ عورت کا شوہر سوال کے مطابق نشے کا عادی بن کر 2018 سے غائب ہے اور اب تک کوئی علم نہیں ہے، اس صورت میں اگر عورت کے لیے نان و نفقہ کا کوئی انتظام نہیں ہے اور عفت کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہو تو عورت کے لیے خلاصی کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ ایسے مفقود شخص کی بیوی اپنا مقدمہ مسلمان قاضی کی عدالت میں پیش کرے اور گواہوں سے ثابت کرے کہ میرا نکاح فلاں شخص کے ساتھ ہوا تھا، پھر گواہوں سے اس کا مفقود اور لاپتا ہونا ثابت کرے، اس کے بعد قاضی خود اپنے طور پر اس کی تفتیش وتلاش کرے، جہاں اس کے جانے کا غالب گمان ہو وہاں آدمی بھیجا جائے، اور جس جس جگہ جانے کا غالب گمان نہ ہو صرف احتمال ہو وہاں خط ارسا ل کرنے کو کافی سمجھے، اور خطوط ارسال کرکے تحقیق کرے، اور اگر اخبارات میں شائع کردینے سے خبر ملنے کی امید ہو تو یہ بھی کرے۔
الغرض تفتیش وتلاش میں پوری کوشش کرے، اور جب پتا چلنے سے مایوسی ہوجائے تو قاضی دیکھےگاکہ مفقود کے غائب ہونےسےاب تک اگر کم از کم ایک سال کا عرصہ گزرچکاہے تو اس صورت میں قاضی نکاح ختم کرسکتا ہے۔مذکورہ طریقے کے موافق فسخ نکاح کے بعد عورت کے لیے طلاق کی عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنا جائز ہوگا۔
بدائع الصنائع ميں هے:
"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."
[كتاب الطلاق،فصل واما ركن الخلع،ج:3ص:229ط،مكتبة فاروقية، لاهور پلازه عبد الستار روڈ كوئٹه]
شامي ميں هے:
"وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."
[كتاب الطلاق، باب الخلع، ج:3 ص:441ط،سعيد]
مبسوط سرخسي میں هے:
"(قال): والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد."
[ كتاب الطلاق، باب الخلع،ج:6ص: 173،ط، مطبعة السعادة - مصر]
فتاویٰ شامی میں ہے:
"أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا."
[كتاب النكاح،باب المهر، مطلب في النكاح الفاسد، ط :سعيد ج:3ص: 132)]
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة، كذا في السراج الوهاج."
(كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم السادس المحرمات التي يتعلق بها حق الغير، ج:1، ص:280، ط:بولاق مصر)
حیلۂ ناجزہ میں ہے:
"إلحاق: طريق تطليق الزوجة المفقودة اؤ الغائب الذي تعذر الارسال اليه او ارسل اليه فتعاند ان كان لعدم النفقه فان الزوجه تثبت بشاهدين، إن فلان زوجها، وغاب عنها،ولم يترك لها نفقة، ولا وكيلا بها، ولا اسقطتها عنه، وتحلف على ذلك، فيقول الحاكم: فسخت نكاحه أو طلقتك منه أو يامرها بذلك, ثم يحكم به, وهذا بعد التلوم بنحو شهر او باجتهاده عند المالكية."
(ص:134تحت الروايةالعاشرة والحادية عشر والثانية عشر،ط:دارالاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608101422
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن