بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

یوم عرفہ کا اعتبار کس جگہ کی تاریخ کے اعتبار سے ہوگا؟


سوال

ہفتے کے دن عرفہ کا روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے اسلام میں؟

جواب

عرفہ کے دن یعنی 9 ذو الحجہ  کے روزے کی احادیث مبارکہ میں فضیلت وارد ہوئی ہے، "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: مجھے اللہ تعالی کی ذات سے امید ہے کہ وہ یوم عرفہ کے روزے رکھنے کی صورت میں گزشتہ سال اور اگلے سال کے گناہ بخش دے گا۔"

اور یہ فضیلت 9 ذو الحجہ کے بارے میں ہے اور جس جگہ روزہ رکھا جائے گا اس جگہ کی 9 تاریخ کا اعتبار ہوگا، نہ کہ سعودی عرب کی 9 ذو الحجہ کا اعتبار ہوگا، اس سال یعنی 1445 ہجری میں سعودی عرب میں 9 ذو الحجہ کو ہفتہ کا دن تھا،  اور پاکستان میں 9 ذو الحجہ کو اتوار کا دن تھا، لہٰذا پاکستان میں رہنے والوں کے لیے ہفتہ کا دن یوم عرفہ شمار نہیں ہوگا، بلکہ اتوار کا دن  یوم عرفہ کا شمار ہوگا۔

سنن أبي داود ميں ہے:

"وصيام عرفة إني أحتسب على الله ‌أن ‌يكفر ‌السنة التي قبله، والسنة التي بعده، وصوم يوم عاشوراء إني أحتسب على الله ‌أن ‌يكفر ‌السنة التي قبله."

(کتاب الصوم، ج:2، ص:321، ط:المكتبة العصرية)

وفيه أيضا:

"وصيام عرفة إني أحتسب على الله ‌أن ‌يكفر ‌السنة التي قبله، والسنة التي بعده، وصوم يوم عاشوراء إني أحتسب على الله ‌أن ‌يكفر ‌السنة التي قبله."

(كتاب الصوم، ج:2، ص:325، ط:المكتبة العصرية)

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:

"هذا ‌إذا ‌كانت ‌المسافة بين البلدين قريبة لا تختلف فيها المطالع، فأما إذا كانت بعيدة فلا يلزم أحد البلدين حكم الآخر لأن مطالع البلاد عند المسافة الفاحشة تختلف فيعتبر في أهل كل بلد مطالع بلدهم دون البلد الآخر."

(كتاب الصوم، فصل أنواع الصيام، ج:2، ص:83، ط:دار الكتب العلمية)

تبیین الحقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (ولا عبرة باختلاف المطالع) وقيل يعتبر ‌ومعناه ‌أنه ‌إذا ‌رأى ‌الهلال ‌أهل بلد ولم يره أهل بلدة أخرى يجب أن يصوموا برؤية أولئك كيفما كان على قول من قال لا عبرة باختلاف المطالع وعلى قول من اعتبره ينظر فإن كان بينهما تقارب بحيث لا تختلف المطالع يجب وإن كان بحيث تختلف لا يجب وأكثر المشايخ على أنه لا يعتبر حتى إذا صام أهل بلدة ثلاثين يوما وأهل بلدة أخرى تسعة وعشرين يوما يجب عليهم قضاء يوم والأشبه أن يعتبر لأن كل قوم مخاطبون بما عندهم وانفصال الهلال عن شعاع الشمس يختلف باختلاف الأقطار كما أن دخول الوقت وخروجه يختلف باختلاف الأقطار حتى إذا زالت الشمس في المشرق لا يلزم منه أن تزول في المغرب."

(كتاب الصوم، ج:1، ص:321، ط:دار الكتاب الاسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144512100702

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں