ایک شخص نے یتیم بچوں کی زمین پر نا حق قبضہ کیا ہوا ہے ،اس زمین پر اس نے اپنا مکان بھی تعمیر کیا ہوا ہے،شریعت میں ایسےشخص کا کیا حکم ہے؟
اللہ تبار ک وتعالی نے اپنی کتاب قرآن مجید میں سورۃ النساء کے ابتدائی رکوع میں شروع سے آخر تک یتیموں کے حقوق سے متعلق مختلف احکامات ارشاد فرمائے ہیں اور یتیم کامال ناحق کھا نے کو اپنے پيٹ ميں آگ بھرنا قرار دیاہے اور ایسے لوگوں کے جہنم میں داخلے کی وعید ارشاد فرمائی ہے، اسی طرح حضور پاک ﷺ نے یتیم کےمال سےمتعلق پوری امت کو یہ تنبیہ فرمائی ہے کہ ’’میں تم کو خاص طور پردو ضعیفوں کے مال سے بچنے کی تنبیہ کرتا ہوں،ایک عورت اور دوسرا یتیم‘‘ پس قرآن وسنت میں مذکور احکامات اوروعیدیں جو یتیم کےمال وغیرہ سے متعلق ہیں، ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی مسلمان کا یتیم بچے کے مال وجائیداد پر ناحق قبضہ کرنا سخت گناہ ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص نے یتیم بچوں کی زمین پر ناحق قبضہ کرکے اس پر مکان تعمیر کرلیا ہے تو اس کا یہ عمل شرعاً ناجائز وحرام ہے، اس پر وہ قرآن و حدیث میں بیان کی گئی وعیدوں کا مستحق ہےاور سخت گناہ گار ہے، اس پر لازم ہے کہ فوراً یتیم بچوں کی زمین ان کو واپس کرے یا اس کی قیمت ادا کرے، ورنہ قیامت کے دن ادا کرنا پڑے گی،جو کہ آسان نہیں ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
"وَآتُوا الْيَتَامَى أَمْوَالَهُمْ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَى أَمْوَالِكُمْ إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِيرًا." [ سورۃ النساء:2]
ترجمہ:’’ اور جن بچوں کا باپ مرجائے،ان کے مال انہی کو پہنچاتے رہو اور تم اچھی چیز سے بری کو مت بدلو،اور ان کے مال کو مت کھاؤ،اپنے مالوں (کے رہنے )تک ایسی کارروائی کرنا بڑا گناہ ہے۔ ‘‘ (ازبیان القرآن)
تفسیر ابن کثیر میں ہے:
"ثم اعلمهم أن من أكل أموال اليتامى ظلما، فإنما يأكل في بطنه نارا ولهذا قال إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلما إنما يأكلون في بطونهم نارا وسيصلون سعيرا أي إذا أكلوا أموال اليتامى بلا سبب فإنهما يأكلون نارا تتأجج في بطونهم يوم القيامة .... عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :أحرج مال الضعيفين المرأة واليتيم."
(سورۃ النساء، 195/2، ط: دار الكتب العلمية)
صحیح بخاری میں ہے :
"حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا عبد الله بن المبارك، حدثنا موسى بن عقبة، عن سالم، عن أبيه رضي الله عنه قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: من أخذ من الأرض شيئًا بغير حقه خسف به يوم القيامة إلى سبع أرضين."
ترجمہ: "سالم بن عبداللہ بن عمر نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے کسی کی زمین میں سے کچھ ناحق لے لیا تو قیامت کے دن اسے سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا۔“
(كتاب المظالم والغصب ، باب إثم من ظلم شيئا من الأرض، 130/3، ط: دار طوق النجاة)
بدائع الصنائع ميں ہے:
"(أما) الذي يرجع إلى حال قيامه فهو وجوب رد المغصوب على الغاصب، والكلام في هذا الحكم في ثلاثة مواضع: في بيان سبب وجوب الرد، وفي بيان شرط وجوبه، وفي بيان ما يصير المالك به مستردا أما السبب فهو أخذ مال الغير بغير إذنه لقوله عليه الصلاة والسلام:" على اليد ما أخذت حتى ترد"، وقوله عليه الصلاة والسلام:" لا يأخذ أحدكم مال صاحبه لاعبا ولا جادا، فإذا أخذ أحدكم عصا صاحبه فليرد عليه."
(کتاب الغصب، فصل فی حکم الغصب،148/7، ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603103141
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن