بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

گھر والوں کے دباؤکی وجہ سے نکاح نامے پر دستخط کرنے سے نکاح کا حکم


سوال

میراپہلا نکاح ختم ہو گیا ہےاور مجھے طلاق ہو گئی تھی،اب میرا دوسرا نکاح میری مرضی کے بغیر ہواہے، میں نے نکاح نامے  پر دستخط والدین کی جانب سے دباؤ میں آ کر کیے، کیا میرا یہ نکاح  ہوگیا؟ اگر نکاح ہو گیا ہے،تو میں اس دوسرے شخص(شوہر) کے پاس رہنا نہیں چاہتی، کیا اس سے میرے لیے طلاق لینا جائز ہے ؟اور جب میں شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہوں،تو وہ کہتے ہیں کہ شادی پر 49 ہزار روپے خرچہ آیا ہے،وہ دے دو، پھر میں  طلاق دے دوں گا، تو اس صورت میں کیا کرنا چاہیے؟

جواب

اگرسائلہ  نےراضی نہ ہونے کے باوجود گھر والوں کے دباؤ میں آکر زبردستی  کی وجہ سے زبانی طور پر اس نکاح کو قبول کرلیا تھا،یا کسی کو  اجازت دے کر قبول کا وکیل بنالیا تھاتوپھراس صورت میں یہ نکاح منعقد ہو چکا ہے،اب شوہر کو راضی کر کے طلاق یا خلع لیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔

اگر لڑکے میں کوئی خرابی نہیں ہے تو آپ گھر والوں کی بات مان کر اس  رشتہ کو دل سے قبول کرکے اس کے ساتھ رہنے پر راضی ہوجائیں،لیکن اگر لڑکے میں کوئی ایسی خرابی ہو(مثلاً:خراب عادتوں میں مبتلا ہو) جس کی وجہ  سے آپ اس کے ساتھ رہنا اور زندگی بسر کرنا نہیں چاہتی ہیں توخاندان کے بڑوں میں سے کسی کو اپنی بات سمجھا کر ان کے ذریعہ خاندان کے دیگر بڑوں کو اس بات پر راضی کریں کہ وہ آپ کے شوہر پر دباؤ ڈال کر طلاق یا مہر کے بدلے خلع لینے کی کوشش کریں،خلع کی صورت میں  شادی کے موقع پر شوہر کی طرف سے کیے جانےوالے اخراجات کی واپسی  کا بیوی سے مطالبہ کرنا درست نہیں، البتہ اگر طلاق کے بدل کے طور  پر اس رقم کا مطالبہ کرے تو اس کا مطالبہ جائز ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌الوكيل ‌بالنكاح ‌من ‌قبل ‌المرأة إذا زوجها ممن ليس بكفء لها قال بعضهم: لا يصح على قول الكل وهو الصحيح،وإن كان كفئا إلا أنه أعمى أو مقعد أو صبي أو معتوه فهو جائز وكذا إذا كان خصيا أو عنينا".

(کتاب النکاح، الباب السادس في الوكالة بالنكاح وغيرها، ج:1، ص:295، ط:رشیدیہ)

وفیہ ایضاً:

"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق ، باب الخلع ،ج:1، ص:488، ط:دارالفکر)

وفیہ ایضاً :

"إن كان النشوز من قبل الزوج فلا يحل له أخذ شيء من العوض على الخلع وهذا حكم الديانة فإن أخذ جاز ذلك في الحكم ولزم حتى لا تملك استرداده كذا في البدائع.وإن كان النشوز من قبلها كرهنا له أن يأخذ أكثر مما أعطاها من المهر ولكن مع هذا يجوز أخذ الزيادة في القضاء كذا في غاية البيان."

(کتاب الطلاق ، باب الخلع ،ج:1، ص:488، ط:دارالفکر)

فتح القدیر میں ہے:

"(وإن ‌طلقها ‌على ‌مال فقبلت وقع الطلاق ولزمها المال) لأن الزوج يستبد بالطلاق تنجيزا وتعليقا وقد علقه بقبولها، والمرأة تملك التزام المال لولايتها على نفسها، وملك النكاح مما يجوز الاعتياض عنه وإن لم يكن مالا كالقصاص (وكان الطلاق بائنا) لما بينا ولأنه معاوضة المال بالنفس وقد ملك الزوج أحد البدلين فتملك هي الآخر وهي النفس تحقيقا للمساواة".

(کتاب الطلاق، باب الخلع، ج:4، ص:218، ط:ومطبعة مصفى البابي الحلبي مصر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511101784

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں