میں بلڈر ہوں اور بلڈنگ وغیرہ کی تعمیرات کے کام سے وابستہ ہوں، میرا ایک گاہک ہے جو مجھے پچاس لاکھ روپے دے رہا ہے، اُس کے عوض ہم اُسے فلیٹ دے رہے ہیں، جو کہ اس وقت زیر تعمیر ہے۔فلیٹ کا خریدار کہتا ہے کہ آپ مجھےکچھ نہ کچھ رقم ماہانہ کرایہ کے نام پر ادا کریں تاکہ اُس سے میرا گزر بسر ہونے لگے۔ شریعت کی رُوشنی میں اِس کا کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ خرید و فروخت کا معاملہ کرتے وقت ایسی شرط لگانا کہ جس شرط کا یہ معاملہ نہ تقاضا کرتا ہو اور نہ ہی یہ شرط اس معاملہ کے مناسبات میں سے ہو اور اس شرط میں بیچنے والے یا خریدنے والے کا کوئی فائدہ ہو تو اس قسم کی شرط خرید و فروخت کے معاملہ کو فاسد کردیتی ہے، لہذا بصورت مسئولہ مذکورہ زیر تعمیر فلیٹ کی خریدداری ہوئی نہیں یا خریداری کےبعد اس کا قبضہ نہیں ملا تو ایسی صورت میں کرایہ داری کا معاملہ ممکن ہی نہیں، لہذا خریدار کا یہ شرط لگانا کہ ماہانہ بنیاد پر اُسے کرایہ بھی ادا کیا جائے شرعاً جائز نہیں ہے، اور اِس شرط کے ساتھ اگر معاہدہ ہوچکا ہو تو اُسے توڑ کر ازسرِ نو فقط خریداری کا معاملہ کرنالازم ہے۔
نیز اگر سائل خریدار کے گزربسر کی خاطر ہمدری میں معاونت کرنا چاہتا ہے تو فلیٹ کی قیمت پچاس لاکھ کے بجائے کچھ کم مقرر کر کے وصول کر لے باقی رقم اسے واپس کردے، تاکہ فلیٹ مکمل تعمیر ہونے تک اُن پیسوں سے وہ گزر بسر کرسکے۔
مجمع الزوائد میں ہے :
"عن عمرو بن شعیب عن أبیه عن جده أن النبي ﷺ نهی عن بیع وشرط... الخ"
(مجمع الزوائد، ج:4، ص:85، ط:دارالکتب العلمیة بیروت)
ترجمہ:" نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خریدو فروخت میں شرط لگانے سے منع فرمایا ہے۔"
ترمذی شریف میں ہے:
"عن أبي هريرة قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة."
(أبواب البيوع،باب ما جاءفي النهي عن بيعتين في بيعة، ج:1، ص:364، ط:رحمانية)
ترجمہ:"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا۔"
مسند أحمد میں ہے:
"نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صفقتين في صفقة واحدة."
(مسند عبد الله ابن مسعود رضي الله عنه، ج:6، ص:324، ط:موسسة الرسالة)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سودے میں دو سودے کرنے سے منع فرمایا۔"
مبسوط سرخسی میں ہے:
"وإن كان شرطا لا يقتضيه العقد وليس فيه عرف ظاهر قال: فإن كان فيه منفعة لأحد المتعاقدين فالبيع فاسد؛ لأن الشرط باطل في نفسه والمنتفع به غير راض بدونه فتتمكن المطالبة بينهما بهذا الشرط فلهذا فسد له البيع."
(کتاب البیوع،باب البيوع إذا كان فيها شرط، ج:13، ص:15، ط:دار المعرفة)
فتح القدیر میں ہے:
"وكل شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين أو للمعقود عليه وهو من أهل الاستحقاق يفسده ... فأما ما فيه منفعة لأحد المتعاقدين أو المعقود عليه وهو من أهل الاستحقاق، كأن اشترى حنطة على أن يطحنها البائع أو يتركها في داره شهرا أو ثوبا على أن يخيطه فالبيع فاسد."
(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ج:6، ص:443، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي الحلبي)
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) لا (بيع بشرط)...(لا يقتضيه العقد ولا يلائمه وفيه نفع لأحدهما أو) فيه نفع (لمبيع) هو (من أهل الاستحقاق) للنفع بأن يكون آدميا، ...(ولم يجر العرف به و) لم (يرد الشرع بجوازه) أما لو جرى العرف به كبيع نعل مع شرط تشريكه، أو ورد الشرع به كخيار شرط فلا فساد.(قوله ولا بيع بشرط) شروع في الفساد الواقع في العقد بسبب الشرط «لنهيه صلى الله عليه وسلم عن بيع وشرط» ، لكن ليس كل شرط يفسد البيع نهر. وأشار بقوله بشرط إلى أنه لا بد من كونه مقارنا للعقد؛ لأن الشرط الفاسد لو التحق بعد العقد، قيل يلتحق عند أبي حنيفة، وقيل: لا وهو الأصح."
(کتاب البیوع،باب البيع الفاسد، ج:5، ص:84، ط:سعيد)
فقط والله تعالى اعلم بالصواب
فتوی نمبر : 144610101965
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن